پرسوں، اتوار کے روز، کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان علاقوں کے منتخب ارکان کا، چاہے وہ قومی اسمبلی کے ہوں، صوبائی کے یا بلدیاتی اداروں کے، بے اختیار ہونے کا شکوہ الگ ہے مگر یہاں سوال ان انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بھی ہے۔ عمومی تاثر ہے کہ کینٹ کے علاقوں میں چونکہ فوجی بھائیوں کی اکثریت ہے لہذا یہاں سے پی ٹی آئی ہی جیتے گی مگر دوسری زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی سویلین آبادیاں بہت زیادہ ہیں اور اسی نسبت سے ووٹر بھی۔ ہم کئی کئی کنال کی کوٹھیوں میں ایک ایک اور دو دو ووٹر دیکھتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت سارے بنگلے ایسے ہوتے ہیں جن کے رہائشیوں کے ووٹ اپنے آبائی علاقوں میں ہوتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اڑھائی، تین مرلے کے گھرو ں میں پانچ، پانچ اور سات سات ووٹر بھی ہوسکتے ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کی انتظامی اور معاشی کارکردگی پر شدید قسم کے تحفظات رکھتے ہیں، مہنگائی سے بہت تنگ ہیں۔ایک بزرگ نے نشاط بازار میں تقریبا چیختے ہوئے مجھ سے پوچھا، میں جو دوائی سات روپے کی کھاتا تھا وہ سینتالیس روپے کی ہو گئی ہے، آٹے کا تھیلا بارہ سو کا ہو گیا ہے، میں پی ٹی آئی کو ووٹ کیوں دوں؟
میں نے انتخابات کے سلسلے میں لاہور کینٹ کے کئی علاقے گھوم پھر کے دیکھے، لوگوں سے ملا اور بہت سارے امیدواروں سے بھی۔ والٹن میں مسلم لیگ نون کے امیدوار عشارب سوہل لنکز ان کے لاء گریجوایٹ ہیں، پیپلزپارٹی کے امیدوار ندیم بیگ جدی پشتی جیالے ہیں اور ا ن کے والد بھی علاقے سے چئیرمین رہ چکے ہیں اور اسی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار رضوان شفیق متحرک سیاسی کارکن ہیں۔ ان سب کا اتفا ق تھا کہ ان کے علاقے میں ووٹ خریدے جا رہے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل فی خاندان ووٹ کا ریٹ پندرہ ہزار روپے تھا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آخری ایک، دو روز میں یہ ریٹ پچیس سے پینتیس ہزار روپے تک جا سکتا ہے۔ سرکاری پارٹی کی طرف سے ترقیاتی کاموں کے نام پر گلیاں ادھیڑی جا رہی ہیں۔ الزام یہ بھی لگاکہ ان انتخابات میں وزیراعظم اور گورنر تک اثرورسوخ استعمال کررہے ہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچاکہ فجر کی نماز کے وقت حکومت کے حامیوں سے اس وارڈ سے ایک آزاد امیدوار کو اٹھایا اور وزیراعظم کی موجودگی میں اس سے دستبرداری کا اعلان کروایا۔ وزیراعظم کی خواہش یہ ہے کہ کینٹ بورڈ اور والٹن بورڈ کی دس، دس نشستوں میں سے آٹھ آٹھ ان کے امیدوار جیتیں مگر زمینی حقائق اس سے الٹ ہیں۔ ان امیدواروں نے مجھے وہ سرکاری خطوط دکھائے جن میں لاہور کے اعلی سرکاری ذمے دار انتخابات کے حوالے سے اجلاس کر رہے ہیں اور ان میں صرف پی ٹی آئی کے مقامی رہنماوں کو نام اور فون نمبر لکھ کر بلایا جا رہا ہے۔ زکواۃ کمیٹیوں کے چئیرمین ان لوگوں کے شناختی کارڈ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر اکٹھے کر رہے ہیں جن پر شک ہے کہ وہ اپوزیشن کوووٹ دے سکتے ہیں لہذا نہ پرسوں ان کے پاس شناختی کارڈ ہوں گے اور نہ ہی وہ ووٹ ڈال سکیں گے۔ بدترین امر یہ ہے کہ الیکشن میں دباو ڈالنے کے لئے پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے متحرک کارکنوں کو بغیر کسی وجہ کے پکڑا جا رہا ہے، انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ لیگی کارکن بتا رہے تھے کہ جب ان کے کارکنوں کو پکڑ کے آر اے بازار تھانے میں بند کیا گیا تو انہوں نے اپنے منتخب ارکان اسمبلی کے ساتھ وہاں دھرنا دے دیا اور انہیں واپس لے کر آئے۔ سیاسی کارکنوں کے اعتراضات تھے کہ پولنگ کا وقت اتوار کے روز چار بجے تک کیوں ہے کیونکہ لاہورئیے اتوار کو گھر سے بارہ، ایک بجے سے پہلے نکلتے ہی نہیں، یہ وقت مغرب تک ہونا چاہئے اور یہ کہ نتائج کا اعلان پانچ روز بعد کیوں ہو گا، گنتی کے بعد نتیجہ کیا مقاصد حاصل کرنے کے لئے روکا جائے گا، میرا خیال ہے کہ ہر غیر جانبدار بندہ اان تحفظات اور اعتراضات کو وزنی سمجھے گا۔
میں بطور پروفیشنل جرنلسٹ جانتا ہوں کہ یہ یکطرفہ باتیں ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ حکومتی امیدوار ہی پیش کر سکتے ہیں جیسے میری ملاقات نشاط کے علاقے سے دونوں امیدواروں پی ٹی آئی کے صیام چوہدری اور نواز لیگ کے قاری حنیف سے ہوئی۔ دونوں متفق تھے کہ دھاندلی نہیں ہونی چاہئے، جو امیدوار ہارے وہ جیتنے والے کو مبارکباد دے اور جو ہارے وہ جیتنے والے کو بھی ہار ڈالے۔ مجھے ان کے سیاسی اختلافات اور ایک دوسرے کی کارکردگی پر تحفظات کے باوجود یہ باتیں اچھی لگیں مگر والٹن کے علاقے سے سرکاری امیدوار کو کوئی ڈیڑھ سو فون کالز کی گئیں۔ میں نے پی ٹی آئی کے رہنما ناصر سلمان سے بھی رابطہ کیا اورعمر صدیقی سے بھی۔ عمر صدیقی مجھے کہتے رہے کہ شاہد اقبال کا فون پانچ منٹ میں آ رہا ہے مگر امیدوار صاحب نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر موقف پیش کرنے سے گریز کیا اور علاقے کے حوالے سے اپنا ایجنڈا بیان کرنے کو بھی ترجیح نہیں دی۔ مجھے لگا کہ وہ الیکشن سے پہلے ہی خود کو بہت توپ شے سمجھ رہے ہیں اور ان کی گردن میں پہلے ہی سریا آچکا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جو شخص الیکشن سے پہلے ہی اتنا گولی بازاور مغرور ہے اس کا یہ چھوٹا سا الیکشن جیت کے کیا حال ہو گا۔ جو ایک صحافی کو دستیاب نہیں ہورہا وہ اپنے حلقے کے عوام کو کیا دستیاب ہو گا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس علاقے میں باب پاکستان بننا تھا وہ کیوں نہیں بنا تو عشارب سوہل نے اس کی ذمے داری بھی پی ٹی آئی پر عائد کی۔ مجھے والٹن سے چونگی امرسدھو کی طرف جانا تھا اور میں نے دیکھا کہ والٹن روڈ پربڑے بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں۔ سڑک کے کنارے کئی سو من کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بھی پڑا ہوا تھااور میں افسوس کر رہا تھا کہ میرے پیارے لاہور کینٹ کی حالت کبھی ایسی نہ رہی تھی۔
میں چونگی امرسدھو آ گیا، یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان کا پہلا شنگھائی برج بنا ہے۔ میری ملاقات نواز لیگ کے امیدوارنعیم بٹ سے ہوئی اور انہوں نے مجھے دکھایا کہ جہاں شنگھائی برج سے تمام آرائش اتر چکی تھی، وہاں اس کے نیچے سرعام نشئی ٹیکے لگا رہے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے امیدوار صیام نے بھی نشاندہی کی تھی کہ ڈیفنس کے فیز ون سے جڑی مسیحی آبادی مریم آباد میں بھی منشیات کا کام سرعام اور دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ لاہور کی ایک این جی او نے نشاندہی کی تھی کہ آج سے تین چار برس شہر میں ساٹھ سے ستر مقامات پر منشیات فروخت ہوتی تھیں اور اب سے تعداد سوا سو سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔مجھے منشیات فروشوں کی دیدہ دلیری پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے زمان پارک میں گھر سے چند سو میٹر دوراور کینٹ جیسے محفوظ علاقوں میں کس دھڑلے سے منشیات بیچ رہے ہیں۔ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ والٹن کا گندا نالہ بھی آبادی میں بدبو اور تعفن پھیلا رہا ہے اور چونگی امر سدھو کا نالہ بھی کچرے سے ایسا بھرا پڑا تھا کہ کوڑے کی پوری چھت بنی ہوئی تھی۔کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں جہاں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں میرے لئے حیران کن تھا کہ ایک آزاد امیدوار نے نعیم بٹ کے تین بیٹوں پر باقاعدہ قاتلانہ حملہ کیا، فائرنگ کی، وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کے ایمرجنسی پہنچ گئے۔میں سوچ رہا تھا کہ اگر کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے میں انتخابی میں ایسی قانون شکنی ہو گی تو پولنگ کے روز کیا کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ الیکشن دھاندلی سے پاک بھی ہوں اور پر امن بھی۔