بھارتی میڈیا حکومتی اربابِ اختیار کے ایما پر پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ طالبان کبھی بھی پنجشیر میں مسعود قبائل پر حاوی نہیں ہو سکتے تھے اگر پاکستانی فضائیہ ان کی مدد کے لئے نہ آتی۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ بے بنیاد الزام تراشیاں کر رہا ہے کہ پاکستان کی فورسز نے طالبان کی مدد کی ہے اور پاکستانی جیٹ فائٹر جد و جہدکرنے والے قبائل کو کرش کر رہے ہیں۔ بھارت کو کہیں سے بھی منہ کی کھانا پڑتی ہے تو وہ سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے، جب کہ پاکستان صرف اخلاقی و سفارتی مدد فراہم کر رہا ہے تا کہ وہاں خون ریزی نہ ہو، افغانستان میں امن کا بول بالا ہو ناحق لوگوں کا خون نہ بہے۔ افغانستان میں طالبان کی یلغار اور فتح کے بعد وہاں اربوں ڈالر کی بھارتی سرمایہ کاری ڈوب جانے کے خدشے کے پیشِ نظر بھارت نے کھل کر پاکستان کے خلاف پرپیگنڈا مہم تیز کر دی ہے۔ بھارت ماضی میں پاکستان پر افغانستان میں دہشت گرد داخل کرنے کا مضحکہ خیز الزامات لگاتا رہا ہے تو دوسری طرف اب جب طالبان نے پنجشیر کو بھی فتح کرلیا ہے تو اس نے پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کی فورسز کی مدد سے ہوا ہے۔ ادھر پاکستان نے بھارت کی گھناؤنی سازشوں کو معمول کی بات قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان صرف افغانستان کی اخلاقی اور سفارتی مدد کر رہا ہے باقی اس کا اس کی جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بھارتی لیڈروں کی جانب سے اس طرح کے بیانات عموماً اس وقت منظرِ عام پر آتے ہیں جب وہ اپنی اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہوں یا پھر عالمی طاقتوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوششیں ان کا مطمع نظر ہو۔ بھارت 20 سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور افواجِ پاکستان کی قربانیوں کو دنیا کی نظروں میں کم کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک بھارت کی افغانستان میں ناکام پالیسی کا تعلق ہے تو امریکہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہو چکا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا ہے اور یہ کہ پاکستان کا پہلے سے اختیار کیا جانے والا مئوقف درست تھا کہ افغانستان میں حالات کی بہتری کے لئے کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے اس کا صرف سیاسی حل ہی ممکن ہے۔ ہندوستان کا پاکستان سے معاندانہ رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بھارتی تاریخ کشمیر و مشرقی پاکستان میں تخریب کاری سے لتھڑی پڑی ہے۔ بلوچستان بھی اس کی ریشہ دوانیوں سے بچ نہیں سکا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ افغان عوام کو بھی پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں مصروف ہے۔ بھارتی حکمران سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف کسی خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 74 سال میں پاکستان اور بھارت کے آپسی تعلقات بہتر نہیں ہو سکے ہیں۔ بھارت کے اندر صوبائی انتخابات کا عمل وقفوں وقفوں سے پورے پانچ سال جاری رہتا ہے ہر چند ماہ بعد کسی بھارتی صوبے میں انتخابات کا بگل بجنے لگتا ہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی اور کانگرس نے اپنے ملک میں انتخابات جیتنے کا یہ آسان نسخہ کیمیا ڈھونڈ نکالا ہے کہ بھارت کے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کو ہندوستانی داخلی سیاست کا محور بنائے رکھا جائے۔ یوں بھارت کے حقیقی مسائل حل کئے بغیر ہی انہیں اپنے مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں اور خطے میں مستقل طور پر تناؤ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔ نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے روزِ اول سے ہی گویا طے کر لیا ہے کہ ہندوستان کے اقتصادی مسائل چونکہ انتہائی زیادہ ہیں اس لئے اس ضمن میں کوئی بڑی پیش رفت ان کے لئے تقریباً ناممکن ہے، لہٰذا عیاری پر مبنی سفارت کاری کے ذریعے دنیا بھر میں یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان ہی علاقے میں تمام مسائل کا ذمہ دار ہے۔
پورے بھارتی میڈیا کا جائزہ لیں تو متعدد تجزیوں، تبصروں، انٹرویوز اور شائع ہونے والی کتابوں میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے را کی خفیہ یا پراکسی جنگ "کوورٹ وار" کا تذکرہ شد و مد سے ملتا ہے۔ امریکی تجزیہ کار کرسٹین فیئر کی کتاب " فائیٹنگ ٹو دی اینڈ" میں پوری باریک بینی سے بھارتی ایجنسی را کی منصوبہ بندیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ قندھار، مزار شریف اور جلال آباد کی بھارتی قونصلیٹوں میں را کے اثر و نفوذ اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردوں کی معاونت کرتا ہے۔ بھارت کا ابھی تک شمالی اتحاد سے رابطہ ہے جس کی وہ پوری طرح طالبان کے خلاف مدد بھی کر رہا تھا لیکن اسے جب منہ کی کھانا پڑی تو اس کا مدعا اپنے میڈیا کی ملی بھگت کے ساتھ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو پاکستان دنیا کے ہر فورم پر دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان میں را کو مداخلت سے باز رکھنے کا کہتا رہا ہے تاہم بھارت پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے، انہیں درپردہ فنڈز کی فراہمی اور سندھ، بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے والی پاکستان دشمن قوتوں کے ساتھ ساز باز میں ملوث ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی افغان فورسز کی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا ہے۔ بھارت اور امریکہ کے اس طرح کے بیانات سے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے۔ بھارت اورامریکہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بھارت اپنی مختلف حرکات سے پاکستان کو زچ کرنے کی کوشش رہا ہے۔ افغان مذاکرات میں پاکستان کا کردار بھی تمام دنیا پر عیاں ہے۔ پاکستان کو ایک عرصہ تک نظر انداز کرنے کی جو پالیسی چل رہی تھی وہ قابلِ عمل نہیں رہی اور افغان گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے کردار کی اہمیت تسلیم کرنا پڑی۔ امریکہ بھی کئی بار اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
بھارت کے اس طرح کے پروپیگنڈے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کی قربانیوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے۔ بھارت کی کوشش تھی کہ امریکہ افغانستان سے نہ جائے اور اگر جاتا بھی ہے تو ایسا افغانستان چھوڑ جائے جو پاکستان کے خون کا پیاسا ہو اور امریکی افواج کے جانے کے بعد وہ پاکستان کو اپنا دشمن تصور کریں۔ امریکہ اور بھارت کا مطمع نظر یہی تھا کہ طالبان کو ایک ایسی عفریت بنا دیا جائے جو پاکستانی ریاست کی خود مختاری کو خطرے میں ڈالتے ہوئے خیبر پی کے اور اس کے قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ کا خاتمہ کر دے۔ ایسی صورتحال میں فوج کو مجبوراً حرکت میں آنا پڑا اور حالات کی بہتری اب سب کو نظر آ رہی ہے۔امریکہ اور بھارت ایسی صورتحال پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اب مختلف قسم کے پروپیگنڈے کر کے عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور بھارت نے بڑی کوشش کی پاکستان کو یک و تنہا کر دیا جائے لیکن دونوں ممالک ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ آج امارتِ اسلامی افغانستان کی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی کو بھی اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور کشمیریوں کی بھی مدد کریں گے۔ یہی بھارتی شور و غوغا کی اصل وجہ ہے کیونکہ وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہو رہا ہے۔