نائن الیون کے جن حملوں کا الزام القاعدہ کی قیادت پر عائد کرنے کے بعد افغانستان پر فوج کشی کی راہ ہموار کی گئی تھی، اگرچہ ابتدا میں القاعدہ کی قیادت نے اس اِلزام کو تسلیم کرنے سے قطعی انکار کیا تھا، وہ کہانی خود امریکی عوام کی سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ اسی لئے امریکی عوام افغانستان پر حملے اور اب وہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکلنے پر امریکی حکومت پر ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔
اس کہانی کے بارے میں خود امریکی تحقیق کاروں نے جو سوالات اْٹھائے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:سب سے بنیادی سوال تو یہی ہے کہ طیاروں کے ٹکرانے سے ٹوئن ٹاورز چند سیکنڈ میں زمین بوس کیوں ہوگئے اور ان کا فولادی ڈھانچہ بتاشے کی طرح بیٹھتا کیوں چلاگیا۔ امریکی سائنس دانوں کے مطابق کنٹرولڈ ڈیمالیشن کا طریقہ اختیار کیے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا تھا جس کے لیے ان عمارتوں میں ڈائنامیٹ رکھا جانا ضروری تھااور یہ کام امریکی ایجنسیوں کی شرکت کے بغیر ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔
اس کے ثبوت میں امریکی سی آئی اے کے سابق افسر میلکم ہاورڈ نے ہسپتال میں بسترمرگ پر انکشاف کیا کہ 9/11 کی واردات میں اس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا۔استعمال ہونے والے سب طیارے ریموٹ کنٹرولڈ اور خالی تھے۔ ان طیاروں کے سگنل رسیور بھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دونوں عمارتوں کی پانچ مختلف جگہوں پر نصب کئے گئے تھے جن کا مقصد طیاروں کو سمت کا تعین کرانا تھا۔سی آئی اے افسر کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کی پینٹاگون ہیڈکوارٹر عمارت کے جس حصہ میں یہ سب واردات پلان کی گئی، اسی بلاک میں بھی طیارے کا ایک ٹریفک رسیور نصب کیا گیا کہ کہیں اس عمارت سے کبھی کوئی ثبوت لیک نہ ہو سکے۔ اس کے لنک میں خبر اور ویڈیوز ہیں اور اس واقعہ کو جواز بنا کر مسلمانوں کو دہشت گرد کہا گیا اور اب تک بے گناہ مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
اس ڈرامے کا ایک اور بڑا ثبوت یہ ہے کہ فرانس کے سکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ کی ایک درسی کتاب میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ امریکا میں 11 ستمبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارتوں پر طیارے ٹکرا کر 3 ہزار سے زائد شہریوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے واقعے میں خود امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ملوث ہے۔اس کتاب کو درس و تدریس سے وابستہ جین پیئریر روچر نے سیکنڈری کلاسوں کے لیے لکھا تھا جس کے صفحہ 204 پر مصنف رقم طراز ہیں کہ دہشت گرد جماعت القاعدہ کی تشکیل ہو یا نائن الیون حملہ ہو، دنیا میں ہونے والا کوئی بڑا واقعہ سی آئی اے کی مرضی کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ امریکا مشرق وسطیٰ تک اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے یہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ اس کتاب نے فرانس اور امریکہ میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
مشہور زمانہ نائن الیون واقعے میں امریکی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے پر کئی تجزیہ کار، مصنفین اور شہری یقین رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا وہاں طیارہ ٹکرا دینا اور وہ بھی القاعدہ جیسی تنظیم کیلئے جو خود امریکہ کی زیرسرپرستی ہو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر امریکہ میں تباہ ہوا لیکن اس کا ملبہ اسلامی دنیا اور بالخصوص افغانستان پر گرا۔ پاکستان بھی اس ملبہ کی زد میں آیا۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جس نام نہاد جنگ میں پاکستان کو جھونکا‘ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ اب ملک کے طول و عرض میں قتل و غارت گری کا طوفان برپا ہے اور ملک کی تمام سیاسی و عسکری قیادت کے اس بحران سے نمٹنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا ہے۔ نائن الیون مسلمانوں کیلئے ہی نہیں امریکی عوام اور پوری مغربی دنیا کیلئے بربادی کا پیغام لایا۔ نائن الیون کے بعد مسلمان تو معتوب ٹھہرے لیکن نئی قانون سازی کے ذریعہ اس وقت کی بش انتظامیہ نے جاسوسی کے پھندے میں پھنسایا کہ اب امریکہ میں شخصی آزادی کا تصور ہی مکن نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سی آئی اے اور تمام مغربی ملکوں کی انٹیلیجنس ایجنسیاں اپنے ہی عوام کی جاسوسی کر رہی ہیں۔ آزادی اظہار کے جس تصور پر مغرب اتراتا تھا اب وہ قصہ ماضی بن چکا ہے۔ سنوڈن کے انکشافات چھاپنے والے برطانوی اور برازیلین صحافیوں کو برطانوی پولیس نے ڈرا دھمکا کر ان کا تمام ڈیٹا اور معلومات چھین لئے۔ مغربی ملکوں کے عوام اپنی حکومتوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے غلام بن چکے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے عراق اور افغانستان کے خلاف مہنگی ترین جنگیں لڑیں جن کا خمیازہ امریکی عوام کو بھگتنا پڑا۔ امریکی مبصرین کے مطابق نائن الیون کے بعد ان دونوں جنگوں کے فیصلے انتہائی مہنگے ثابت ہوئے۔ جنگوں کی قیمت امریکی عوام نے ہمیشہ اضافی ٹیکسوں کی صورت میں ادا کی۔ رونالڈ ریگن نے مختصر انتظامیہ رکھی لیکن قوم کا اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ سرد جنگ کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے ٹیکسوں میں تین گنا اضافہ کیا گیا۔
آج دنیا میں بسنے والا کوئی بھی مسلمان اِس سے قطعاََ انکار نہیں کرسکتاکہ امریکا نے نائن الیون کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں سے متعلق اپنے ظالمانہ رویوں سے اِن کے دلوں میں نفرت کی جو آگ بھر دی ہے وہ اَب یوں اتنی جلدی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی کیوں کہ اَب اِن امریکی مظالم پر خاموشی اختیار کرنے والی اْمت مسلمہ کو بیدار ہونے اور دنیا سے امریکا کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اِسے متحد اور منظم ہونے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مسلم امہ اپنے اتحاد اور جذبے سے سرشار ہوکر اِ س صدی کی فیصلہ کن صلیبی جنگ کے بعد ہی اپنی فتح وکامرانی کی صْورت میں اپنے دلوں میں لگی امریکا سے نفرت کی یہ آگ ٹھنڈی کرسکے گی۔ اور پھر یوں مسلم امہ اپنے اتحاد اور جذبے سے ہی امریکا کو شکست دے کر اِس کا گھمنڈ خاک و خون میں ملادے گی۔