دولت حاصل کرنے کے لئے کیا کیا حربے آزمائے جاتے ہیں بندہ دیکھ اور سن کر حیران رہ جاتا ہے اور ایسا کرنے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس سے ملک بھی بدنام ہوسکتا ہے۔ایسا کرنے میں خواتین بھی مردوں سے پیچھے نہیں رہیں تقریباً تین دہائی قبل ایسا ہی ایک واقعہ منظرعام پر آیا جس میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ڈسٹرکٹ مظفر گڑھ تحصیل جتوئی کی مختارا مائی نامی خاتون نے الزام لگایا کہ اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی ہے اپنے مقصد کے حصول کے لئے مقامی اخبار کے نمائندے کو استعمال کیا گیا جس نے ایک خبر دی جو اس کے اخبار میں تین کالم شائع ہوئی دوسرے دن باقی اخبار کے نمائندوں نے بھی بغیر کسی تحقیق کے اس خبر کو شائع کر دیا ایک اخبار نے اسے ایشو بنا کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی۔اسی دوران سینئر صحافی اور تحقیقاتی سٹوری کرنے والے میاں غفار نے مختاراں مائی کے علاقے میں جا کر تحقیقات کیں تو علم ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے پہلے تو مختاراں مائی نے کیس اس لئے اٹھایا کہ وہ اپنے دشمنوں یعنی مستوئی قبیلے والوں کو نقصان پہنچانا چاہتی تھی لیکن بعد میں علم ہوا کہ اس سے تو بہت سی دولت بھی کمائی جا سکتی ہے یقینا وہ آج تک اس کا فائدہ اٹھا رہی ہے اسے کوئی غرض نہیں کہ بھارت سمیت بہت سے ممالک اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہے۔اس وقت کے صدر مشرف جب ایک غیر ملکی دورے پر گئے تو ان سے سوال ہوا کہ پاکستان میں تو خواتین محفوظ ہی نہیں تو انہوں نے صفائی پیش کی۔بعد ازاں جب افتخار چوہدری کے دور میں اس کیس کا فیصلہ ہوا تو اس میں یہ ثابت ہوا کہ جن کے خلاف الزام تھا وہ بے قصور ہیں اور انہیں بری کر دیا گیا لیکن اس واقعے کے بعد ایک طرف پاکستان کی بدنامی ہوئی دوسری طرف مختاراں مائی جس کے گھر کا صرف ایک کمرہ پکا تھا ایک بہترین گھر میں رہنے لگی اور اس سمیت تقریبااڑھائی سو این جی اوز اس چھوٹے سے علاقے میں رجسٹرڈ ہو گئیں۔انہوں نے کیا کیا یہ الگ داستان ہے۔
مختاراں مائی پارٹ 2 کیس اس وقت سامنے آیا جب 14 اگست کو مینار پاکستان لاہور میں ایک واقعہ پیش آیا۔جس پر پہلے تو سوشل میڈیا پھر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی شور پڑ گیا سوشل میڈیا پر موجود یو ٹیوبر حضرات اس لڑکی اور اس کے دوست ریمبو کی حمایت میں خوب شور مچا رہے تھے ہمارے بہت سے ٹی وی اینکر حضرات بھی اسی کو تحقیقی سٹوری کے طور پر لے رہے تھے لیکن ان سب کی تحقیق صرف ٹک ٹاکر کے انٹرویو تک محدود رہی۔اس دوران کچھ لوگ یہ بھی شور مچاتے رہے کہ ریمبو اور عائشہ کو گرفتار کیا جائے اور اصل حقیقت معلوم کی جائے لیکن شائد اس وقت پولیس پر اتنا دباؤ تھا کہ اس نے گنتی پوری کرنے کے لئے ہر اس شخص کو گرفتار کیا جو اس دن اس علاقے سے بھی گزرا تھا۔عائشہ ٹی وی شوز میں ریمبو کو اپنا بھائی کہہ رہی تھی جس کی وہ بھی تردید نہیں کر رہا تھا معاملہ دوسرے دن ہی مشکوک ہو گیا تھا جب دونوں کی قابل اعتراض ویڈیو سامنے آنے لگیں جو بہن بھائی کی نہیں ہو سکتی تھیں۔کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ ڈرامہ شہرت حاصل کرنے کے لئے رچایا گیا ہے کچھ انہیں مظلوم قرار دے رہے تھے۔کچھ اس واقعہ کو ملک دشمن سرگرمی قرار دے رہے تھے۔سیکڑوں لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا شناخت پریڈ میں کچھ کو شناخت بھی کیا گیا۔
مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب عائشہ اور ریمبو میں کسی بات پر اختلافات ہوئے تو دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف سچ اگلنا شروع کر دیا۔پولیس نے عائشہ ٹک ٹاکر کی درخواست پر ریمبو کو حراست میں لے لیا اس نے الزام لگایا کہ ریمبو اسے بلیک میل کرتا ہے۔جب کہ ریمبو اس بات سے انکاری ہے۔ ابھی بھی اس کیس میں بہت سی ایسی گتھیاں موجود ہیں جنھیں سلجھانے کی ضرورت ہے پولیس اس وقت درست لائن پر تحقیقات کر رہی ہے اگر اس پر کوئی دباؤ نہ ڈالا گیا تو معاملہ حتمی انجام تک پہنچ جائے گا امید ہے کہ ابھی اس کیس میں بہت سے حقائق منظرعام پر آئیں گے۔
مختاراں مائی ہو عائشہ ٹک ٹاکر یا ریمبو سب کا مقصد ایک ہی ہے وہ ہے پیسہ کمانا پیسہ ضرور کمائیں لیکن جائز طریقے سے ناجائز طریقے سے کمانے کا انجام خطرناک ہوتا ہے اور ملک کی بدنامی علیحدہ ہوتی ہے۔افسوس اس بات کا بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر بے پرکی اڑانے والے کوئی تحقیق کئے بغیر اے سی کمرے میں بیٹھ کر کہانی بنا لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے سنسنی خیزی پیدا کر کے پیسے بنانے ہوتے ہیں اس سے بھی زیادہ افسوس ہوتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی تحقیقاتی صحافت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت دن پہلے ہی یہ کیس حل ہو جاتا اور مجرم سلاخو ں کے پیچھے ہوتے۔