یہ ویڈیو میں نے کورٹ کے سینئر رپورٹر جناب عبدالقیوم صدیقی کی ٹوئیٹر پروفائل پر دیکھی جس میں ایک شخص ہاتھ میں بڑا سا ڈنڈا اٹھائے ایک خوبصورت عمارت میں لگے بڑے بڑے شیشے توڑ رہا تھا۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ ڈنڈا گردی سے پہلے اسے ایک پولیس کانسٹیبل روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اسے یوں دھمکاتا ہے کہ وہ بھیگی بلی کی طرح نکل جاتا ہے۔ وہ زور، زور سے بول رہا تھا اور ظاہر ہے کہ اس کے الفاظ اس کے اعمال کی طرح مناسب نہیں تھے۔ سینئر صحافی نے پوچھا تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے، یہ شخص کون ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس سوال کے جواب فوری طور پر ہی سوشل میڈیا پر ملنے شروع ہو گئے کہ لاہور ہائی کورٹ کی کاپی برانچ ہے اور یہ شخص ایک وکیل ماجد جہانگیر ہے جو ایک رٹ پٹیشن کی تصدیق شدہ کاپی نہ ملنے پر شدید غصے میں ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھتے ہوئے کوئی اس وکلا گردی کی حمایت نہیں کر سکتا تھا اورہمارے بہت سارے لوگوں کے دلوں میں ویسے ہی وکلا برادری کے خلاف غم، غصہ اور تعصب بھرا ہوا ہے لہٰذا ویڈیو وائرل ہوئی۔ پنجاب اور لاہور پولیس اس وقت سوشل میڈیا پر کافی ایکٹو ہے۔ سو اطلاع ملی کہ ہائی کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کاپی برانچ شبیر احمدکی تھانہ پرانی انارکلی میں درخواست پر انسداد دہشت گردی سمیت کوئی چھ دفعات کے ساتھ مقدمہ درج ہو گیا۔ ماجد جہانگیر گرفتار ہو گیا اور اس کی حوالات میں بند ہونے کی ایک تصویر بھی جاری کر دی گئی جس کے بعد معاملہ اپنے بظاہر اپنے منطقی انجام پر پہنچ گیا۔
یہ ایک خبر تھی جو مکمل ہوچکی تھی مگر مجھ جیسے صحافی کے لئے نہیں۔ ڈنڈا چلانا ایک خبر ہے مگرا س خبر کے پیچھے اصل خبر یہ ہے کہ ڈنڈا کیوں چلایا گیا۔ جیسے یہ ایک خبر ہوتی ہے کہ ینگ ڈاکٹرز او پی ڈیز سے لے کر ایمرجنسیاں تک بند کر دیتے ہیں مگر میرے لئے اصل خبر یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ کچھ باتیں تو ایف آئی آر ہی میں واضح تھیں کہ ماجد جہانگیر نے20 ستمبر کو ایک تصدیق شدہ نقل کے لئے اپلائی کیا تھا اور اس نقل کے دینے کی تاریخ 27ستمبر دی گئی تھی۔ کاپی برانچ کا عملہ ہی اپنی تحریر میں بتاتا ہے کہ وہ مصدقہ نقل لینے کے لئے یکم اکتوبر کو بھی آتا ہے مگر نقل نہ ملنے پر شور شرابا کرتا اور گالیاں تک دیتا ہے اور پھر چھ اکتوبر آجاتی ہے جس روز یہ واقعہ ہوا۔ میں نے کئی وکلا رہنماؤں سے رابطہ کیا کہ میں اس وکیل گردی پر ایک پروگرام کرنا چاہتا ہوں مگر وکلا برادری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھی کی غلطی پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ بار، ہائی کورٹ بار، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اورپھر صوبائی اور وفاقی بار کونسلیں، ان کے انتخابات سال بھر چلتے رہتے ہیں اور ہر وکیل ہر وقت کسی نہ کسی انتخابی مہم پر ہوتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت وہ امیدوار مہم چلا رہے ہیں جو دو برس کے بعد امیدوار ہوں گے لہٰذا یہ سب برے وکیلوں کے خلاف بھی بات نہیں کرتے کیونکہ ووٹ برے وکیلوں کے بھی اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے اچھے وکیلوں کے۔سو جہاں بہت سارے وکیلوں نے اچھے برے بہانے بنائے وہاں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سینئر نائب صدر غلام مرتضی چوہدری، ممبر پنجاب بار کونسل رانا انتظار اور وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد نے جرأت کے ساتھ سچ بولنے کی حامی بھر لی اور یہیں سے انکشافات کا سلسلہ شروع ہوا۔
فرحان شہزاد فون پر بتا رہے تھے کہ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے کہ فیصلوں کی نقول نہیں ملتیں اور رانا انتظار انکشافات کے ڈھیر لگا رہے تھے کہ ہائیکورٹ کی نقل برانچ مبینہ طور پر کرپشن کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ میرا خیال تھا کہ لوئر کورٹس کاپی پروسیس میں ہی کرپشن ہوتی ہے جیسے اہلمد سو روپے، پرائیویٹ بندہ سو روپے، کاپی کے پیسے، ٹکٹ کے پیسے، جوٹھپے لگائے اس کے بھی سو مگر اوپر معاملہ ’سووں‘ کی بجائے ’ہزاروں‘ میں چلا جاتا ہے اور اگر آپ پروسیس پورا نہیں کرتے توچھ، چھ ماہ تک نقل ہی نہیں ملتی۔ میں نے پوچھا کہ اگر چھ، چھ ماہ مصدقہ نقل ہی نہ ملے توحق میں فیصلے پر عملدرآمد کیسے ہو اور مخالف فیصلے کے خلاف اپیل کیسے۔ بتایا گیا کہ بدنظمی کا یہ حال ہے کہ جو پیسے دے دے اس کی نقل فوری طور پر مل جاتی ہے جیسے ایک نقل لینے کی درخواست کا نمبر دو سو ہے اور دوسری کا دو سوچالیس تو دو سو چالیس فوری مل سکتی ہے اور دو سونمبر دو ماہ بعد بھی نہیں ملے گی۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ کئی نوجوان وکلا کے پاس مقدمات ہی دو، چار ہوتے ہیں اور اگر ان کی نقل بھی نہ ملے تو کلائنٹ یہاں تک بدتمیزی کرتا ہے کہ تم کیسے وکیل ہو کہ نقل تک نہیں لے سکتے، نکالو ہماری فیس واپس، جس پر ان کا ڈپریشن میں آنا کوئی عجیب بات نہیں۔ یہاں جرأت اور دیدہ دلیری دیکھئے کہ ایف آئی آر میں لکھوایا جا رہا ہے کہ 26ستمبر مقررہ تاریخ تھی اور ظاہر ہے کہ تب نہیں دی تو یکم اکتوبر کو ماجد جہانگیر نے احتجاج کیا مگر اس احتجاج کو طاقتور اور کرپٹ عملے نے وہاں لکھا جہاں نہیں لکھا جانا چاہئے تھا سو اس نے چھ اکتوبر کو اپنی دھمکی پر عمل کر دیا۔برادرم اویس احمد ایڈووکیٹ، ماجد جہانگیر کے وکیل ہیں اور وہ بتا رہے تھے کہ ماجد کا نفسیاتی مسئلہ ہے، میں سمجھ سکتا ہوں کہ اب اس کا دفاع اسی طرح ممکن ہے اور یوں بھی اگر آپ فارن کوالیفائیڈ ہوں اور آپ کے سامنے اس طرح کی کرپشن ہو تو آپ پاگل ہی ہوجائیں گے۔
اب اس تحریر کی اصل کی طرف آتا ہوں کہ وکلا رہنماؤں کے مطابق یہ سب تو آئس برگ کا صرف ایک کونہ ہے، دیگ کا ایک دانہ ہے۔ وہ’فیورٹ ازم‘ کی بات کرتے ہیں جس کی میں وضاحت نہیں کرنا چاہتا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت مقدمات ’ڈن بیس‘ پر لئے جاتے ہیں جس کی فیس پچاس ہزار کے بجائے پچا س لاکھ بھی ہوسکتی ہے او ر جو وکیل’ڈن بیس‘پر کام نہیں کرتا اس سے کلائنٹ بھاگ جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت حالات اتنے خراب ہیں کہ مقدمات کی معیشت کا اسی فیصد فنانس پندرہ سے بیس چیمبرز کے پاس ہے اور اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر بیا ن کی گئی ہے۔ اس سے پہلے ایک اور وکیل رہنما میرے پروگرام میں بتا کے جا چکے ہیں کہ پولیس والوں تک سے پراسیکیوشن ڈپیارٹمنٹ نے باقاعدہ ہر چالان کی اجرتیں طے کر رکھی ہیں۔ بتایا گیا کہ کیس کی سماعت کے بعد بھی پیسے لینے کے لئے دوڑیں لگتی ہیں۔ یہاں ایشو کیس مینجمنٹ کا بھی ہے، وکلا کو ’لیفٹ اوور‘ کے مسئلے کا شدت سے سامنا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مختلف مقدمات کی نوعیت کے اعتبار سے ان کی سماعت کا وقت بھی مقرر ہو سکتا ہے بجائے یہ کہ وہ دن بھر بیٹھے رہتے ہیں اور مقدمے کی سماعت ہی نہیں ہو پاتی۔
صرف دو باتیں کہنا چاہوں گا کہ میں نے کوئی انکشافات نہیں کئے یہ سب باتیں سب وکیل جانتے ہیں اور تمام فیصلہ ساز، بااختیار بھی مگر کوئی بھی ان پر بات نہیں کرتا۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہائی کورٹ کا یہ حال ہے تو پھر مجھے کسی دوسرے محکمے بارے شکایت ہی نہیں کرنی چاہیئے۔بتانے کو بہت کچھ ہے مگر کوشش کی ہے کہ کچھ بین السطور ہی بیان ہوجائے کہ ماجد جہانگیر جیسے فارن کوالیفائیڈ نفسیاتی مریض کیوں بنتے ہیں اور ڈنڈے اٹھا کے شیشے کے گھر کیوں توڑ دیتے ہیں۔