اگلے عام انتخابات کے انعقاد کو ڈیڑھ برس سے کم کا عرصہ باقی رہ گیا ہے…… بلکہ یوں کہیے کہ محض ایک سال کیونکہ آخری سال 2023 کے ماہ جولائی کو موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہو جائے گی…… چھ ماہ تیاریوں میں بسر ہو جائیں گے…… گویا رواں سال 2022 کے جتنے ماہ باقی رہ گئے ہیں انہی کے دوران وزیراعظم بہادر عمران خان کی ملک و ملت کو تبدیلی سے سرشار کرنے والی انتظامیہ نے اپنی ”تاریخی“ کارکردگی کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے اس کی تکمیل کر کے اہل وطن کے سامنے سرخرو ہونا ہے اور اسی کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے مقابلے میں کامیابی کے جوہر دکھانے ہیں …… مخالفین تو دور کی بات ہے حکومت کے پُرجوش حامی بھی گزشتہ تین سوا تین سال کی کارکردگی کو صفر کا درجہ دے رہے ہیں …… اس کی روشنی میں بقیہ چھ ماہ کے اندر عمران بہادر اور ان کے ساتھی جو کچھ کر دکھائیں گے وہ امر معلوم ہے مگر کیا اگلے انتخابات واقعی آئینی لحاظ سے طے شدہ مدت یعنی وسط 2023 میں آگے پیچھے ہو جائیں گے…… اس حوالے سے ہمارے عظیم کھلاڑی جمع سیاستدان کے جو لچھن سامنے آئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے انہیں ایک اور پانچ سالہ مدت کے لئے اپنی حکومت کو برقرار کرنا چنداں مشکل نہ ہو گا انتخابات ہوں یا نہ ہوں کیونکہ جس فنکاری بلکہ آئین و قانونی ضوابط کو لتاڑ کر نیب کے محبوب نظر چیئرمین کو توسیع دی گئی ہے اور ایک نئے آرڈیننس کے ذریعے ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی یادگار اس احتسابی ادارے کی زندگی میں نئی روح پھونکی گئی ہے…… اس سے اندازہ لگا لینا ہرگز مشکل نہ ہو گا کہ اگلے انتخابات کا انعقاد ہمارے کھلاڑی کی اس صوابدید یا سیاسی مصلحت پر ہو گا نہ کہ آئین اور قانون کے شدید تقاضوں کی پابندی کرتے ہوئے لیکن فرض کیجیے وزیراعظم سخت ترین عوامی دباؤ کے تحت وقت پر انتخابات کے انعقاد کا مصمم ارادہ کر لیتے ہیں اس سے قبل مردم شماری کی لازمی شرط پر بھی بطریق احسن عمل ہو جاتا ہے اس نکتے پر بھی حکومت، الیکشن کمیشن اور مخالف جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے رو بہ عمل آ جاتا ہے کہ 2023 کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کی بذریعہ ای میل شرکت کے ساتھ ہونے چاہئیں یا نہیں ……
اصل سوال پھر وہی سامنے آن کھڑا ہوتا ہے کہ دوسری پانچ سالہ مدت کے لیے اقتدار کے حصول کی خاطر وزیراعظم اپنی کارکردگی کے کھاتے میں قوم کے سامنے کیا رکھیں گے…… کیا احتساب کا عمل مکمل ہونے کو ہے یا ابھی شروعات بھی نہیں ہوئیں اور اس سے پہلے ہی سب سے بڑے احتسابی ادارے کا ڈھانچہ تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے …… مبادا وزیراعظم خود اور ان کے قریبی وزراء و سیاسی رفقاء اس کے شکنجے میں آ جائیں …… کیا شہزاد اکبر صاحب جنہیں بڑے طنطنے کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس میں خاص طور پر قائم کردہ Asset Recovery Unit کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا وہ نئی حکومتی لغت کے مطابق لوٹا ہوا ایک پیسہ بھی واپس لانے میں کامیاب رہے ہیں کیا ان کے الفاظ میں مفرور نوازشریف کو وطن واپس لے کر آنا ممکن ثابت ہوا ہے…… کیا برطانوی عدالتوں کے اندر ہی اس کا یا اس کے بیٹوں کا کوئی جرم ثابت کیا جا سکا ہے…… ان سب باتوں کو اگر نظرانداز بھی کر دیا جائے تو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر غریب کنبوں کو تعمیر کر کے دینے کا انتخابی وعدہ دس فیصد حد تک بھی پورا کر لیا گیا ہے؟ ”روز افزوں مہنگائی ہمارے ہرگز قابو میں نہیں آ رہی“ اور ”بڑھتی ہوئی بیروزگاری پر قابو پانا سخت مشکل ثابت ہو رہا ہے“…… روزِروشن کی طرح عیاں اس ناکامی کا اعتراف تو کھلاڑی وزیراعظم نے اپنی زبان سے صبح شام کرنا شروع کر دیا ہے…… چلیے بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری کے خواب نے کسی حد تک ہماری اشک شوئی کا اہتمام کیا ہوتا الٹا ہم نے سی پیک جیسے عظیم تعمیراتی منصوبے کو جو اگر پچھلی حکومت کے دور کے مطابق جاری رہتا تو پاکستان کے سٹرٹیجک جمع تجارتی نقشے کو بدل کر رکھ دیتا…… آمدنی اور روزگار کے اَن گنت مواقع پیدا ہو جاتے…… اس کی راہ میں بھی ہماری بدنیتی اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ جیسے سالارِ قوم کی پرلے درجے کی بدعنوانی حائل ثابت ہوئی…… چین جیسا برے وقت میں کام آنے والا دوست ناراض ہو گیا…… سو علیحدہ مگر یارو اسی پر اکتفا نہیں امریکہ کے ہم 1953 سے اتحادی چلے آ رہے تھے اب وہ ہاتھ ملانے کا روادار بھی نہیں …… افغانستان میں گزشتہ
15 اگست کو جو سٹرٹیجک کامیابی حاصل ہوئی اور ہماری گزشتہ 40 برس کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ تھی اس کے مطلع پر بھی گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں …… سعودی حکام اور عرب دنیا منہ موڑے بیٹھی ہے…… یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں اور امریکہ کی نائب وزیرخارجہ ونڈی شرمن بھارت میں سخت قسم کا پاکستان مخالف بیان جاری کر کے اسلام آباد پہنچی ہیں …… وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہوئی البتہ آرمی چیف کو یہاں کے اقتدار کی فیصلہ کن شخصیت سمجھ کر موصوفہ نے گفتگو کے قابل جانا ہے…… اپنے سخت تر مطالبات ان کے سامنے رکھے ہیں …… کسی قسم کی مالی یا تجارتی امداد کی بلاواسطہ بھی یقین دہانی نہیں کرائی تو کیا 3.5 سالہ عظیم تر کارکردگی کا یہ وہ سبز یا سرخ خاکہ ہے جسے 2023 کے انتخابات اگر واقعی ہو گئے کے موقع پر موجودہ حکمران اپنے متوقع ووٹروں کے سامنے رکھ کر فتح کے طالب ہوں گے……
ہاں البتہ ایک بات کا سہارا شروع دن سے چلا آ رہا تھا وہی ”ایک پیج“ والا مشہور و معروف سہارا لیکن اب وہ کاٹھ کی ہنڈیا بھی سرِبازار ٹوٹتی نظر آ رہی ہے…… معلوم نہیں گزشتہ منگل کو مریم نواز کی دھواں دار اور ایک پیج کے آئینی بھرم کو ناقابل تردید شواہد کے ساتھ پریس کانفرنس میں اس کے بھرم پر کاری ضرب لگی ہے یا آرمی چیف نے پہلے ہی کوئی 3.5 سال پرانے ڈی جی آئی ایس آئی کو پشاور کے کور کمانڈر کے عہدے پر ترقی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور عمران بہادر پر ان کا جانا گراں گزر رہا تھا کیونکہ عیاری پر مبنی جو ”آئینی سہولیات“ اور احسانات موصوف نے ہمارے وزیراعظم کے پائے چوبیں کو مہیا کرنے کے لئے کئے ان کا وہ کسی اور سے تصور نہیں کر سکتے تھے اور کراچی سے جو نئی عسکری شخصیت آئی ایس پی آر کے نوٹ کے مطابق ان کی جگہ لینے والی تھی ان پر شاید زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا…… لہٰذا پورے ملک کے باخبر اور باشعور حلقوں کو یہ حیران کن اطلاع سننے کو ملی کہ وزیراعظم نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی نئی پوسٹنگ کے مسودے پر دستخط کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے…… نوبت باایں جا رسید کہ پرسوں جمعہ کے روز وزیراعظم نے قومی سلامتی کا جو اجلاس بلایا ہوا تھا جس میں حکومت کے اہم سویلین اداروں کے علاوہ تمام کی تمام عسکری قیادت شریک تھی ایسے اہم ترین اجلاس میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی شرکت کی باوجود اس کے کہ آئی ایس پی آر جیسا فوج کی ترجمانی کرنے والا مستند ادارہ ان کی اس منصب سے علیحدگی کی خبر دے چکا تھا اب اسے کیا کہا جائے…… ایک دھماکہ خیز امکانی ٹکراؤ کی شروعات یا ”ایک پیج“ کی پراسرار کہانی (Myth) کا ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا شکار ہو جانا اس کی جو بھی تعبیر کر لیجئے پہلے والی کیفیت باقی رہتی نظر نہیں آ رہی…… جنرل فیض حمید انتہائی متنازع ہو چکے ہیں اور اگر ان کی جگہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی خواہش کے مطابق کراچی کے کور کمانڈر جنرل ندیم انجم نے لے لی تو آئین و قانون کی پاسداری کے حوالے سے نئی جوڑی کا کیا روحِ کردار ہو گا کچھ نہیں کہا جا سکتا…… لہٰذا اگلے انتخابات بروقت اور شفاف طریقے سے ہوں گے یا نہیں ان کے بارے میں وہ جو کہتے ہیں Confusion worth confounded کی سی کیفیت بڑھتی چلی جا رہی ہے……
پاکستان میں نیم جمہوریت نیم آمریت یا جسے آج کل Hybrid System کہا جاتا ہے ہمیشہ ناکام ثابت ہوا ہے…… آئین کی بالادستی اور منتخب پارلیمنٹ کی حکمرانی والی جمہوریت جو بانیِ مملکت قائداعظمؒ کا خواب تھی کو بوٹوں والوں نے ہمیشہ روندھ کر رکھ دیا…… لالچی سیاستدانوں نے ان کا ساتھ دے کر اپنے لیے خواری اور ذلت کا سامان کیا…… اوراق تاریخ میں منہ کالا کیا…… فوجی آمریت خواہ جنرل ایوب خان کی تھی، یحییٰ، ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف کی اس نے ہر موقع پر ہمارے گلے میں امریکی غلامی کا وہ طوق ڈالا جس کے ہولناک نتائج آج کل ہم بھگت رہے ہیں کہ ان سابق آقان ولی نعمت کا یہ عالم ہے وہاں کی کوئی قابل ذکر شخصیت ہمارے وزیراعظم سے ہمکلام ہونے کے لئے تیار نہیں، جو امداد دی اور جب بھی دی ہمیشہ عارضی ثابت ہوئی، وقتی طور پر اس نے چمک دمک بہت دکھائی لیکن مقصد براری کے بعد سب کچھ ہوا کا بلبلہ ثابت ہوا…… امریکیوں نے ہر موقع پر ہمارے فوجی ڈکٹیٹروں کو کاندھوں پر بٹھا کر اپنے مفادات کی دیکھ بھال کی اور پھر ہمیں انتشار کے اندھے کنویں میں پھینک کر یہ کہتے ہوئے چلتے بنے کہ مفادات مستقل ہوتے ہیں، دوستیاں نہیں …… ان کی براہ راست اطاعت گزاری سے بدمزہ ہو کر پاکستانی وردی پوشوں نے نیم آمریت نیم جمہوریت یا Hybrid Democracy کے تجربات کیے یہ سراسر منافقت کے علاوہ کچھ نہیں تھے…… انہیں نظام کہنا ہی ان تصورات کی توہین ہے…… سکندر مرزا ان تصورات کا بانی تھا…… آئین سے سخت مغائرت رکھتا تھا…… اس نے پہلا تجربہ کیا پھر ملک کو مارشل لاء کے حوالے کر کے اپنے لیے تادم مرگ رسوائی مول لے لی…… چار سالہ مارشل لائی دور کے بعد ایوب خان نے بھی ایک آئین بنایا، اسمبلیاں منتخب کرائیں خود بھی ایک انتخابات لڑا پھر اسی کی گھمن گھیری میں ایسا پھنسا کہ اسی کے نامزد نمبر2 جنرل یحییٰ نے 1962 کے نام نہاد آئین کو رگڑا دے کر مارشل لاء مسلط کیا، ملک تڑوایا، 90 ہزار قیدی ہمارا دشمن بھارت اچک کر لے گیا…… لمبی داستان کو مختصر کرتے ہیں …… ضیاء الحق کو 11 سالہ مارشل لاء کے دوران Hybrid نظام کے غیرجماعتی ایڈیشن کی سوجھی مگر اپنے ہی لائے ہوئے وزیراعظم جونیجو کو اٹھا پھینکنے پر مجبور ہوا…… اسی قسم کی ایک قباحت مشرف نے بھی مسلط کی، بری طرح ناکام ہو گیا لیکن ہمارے صاحب لوگوں پر مرضی کی حکومت کا خمار اس قدر چڑھا ہوا ہے کہ آج کل بھی ایسے ہی ایک سسٹم نے قوم کو جکڑ رکھا ہے …… جمہوریت کی صبح شام مٹی پلید ہوتی ہے، ساڑھے تین سال نہیں گزرے کہ ٹکراؤ کے آثار ایک مرتبہ پھر پیدا ہو رہے ہیں …… بیچ میں دو جمہوری لیڈروں نے کم از کم ملک کے سر پر ایٹمی طاقت کا تاج سجایا…… دفاع وطن کو ناقابل تسخیر بنایا…… وہ کام جو بوٹوں والی سرکاریں نہ کر سکیں …… ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے صرف نوازشریف کا قصور نہیں کہ کسی آرمی چیف کے ساتھ اس کی نہیں بنتی…… عمران خان جیسا تابع مہمل بھی جس کا اپنا خانہ خالی ہے، بغیر کسی کارکردگی کے عاری ہے، منہ بسورے بیٹھا ہے…… یہ جعلی جمہوریت، یہ دو نمبر نظام ہرگز، ہرگز چلنے والا نہیں ……