آدھا تیتر آدھا بٹیر……؟

10:31 AM, 10 Oct, 2021

جس جنگ کو مسلم لیگ ن میں بیانیے کی جنگ کہا جا رہا ہے اصل میں وہ دو نظریوں کی جنگ بنتی جا رہی ہے۔ ایک نظریہ کے سرخیل نواز شریف ہیں اور دوسرے کا جھنڈا شہباز شریف نے اٹھایا ہوا ہے۔ نواز شریف کا نظریہ اداروں سے ٹکرانے کا ہے جبکہ شہباز شریف کا مفاہمت کا۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اپنے نظریے کا ببانگ دہل پرچار کر رہے ہیں جبکہ شہباز شریف آدھا تیتر آدھا بٹیر کی طرح کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا پیغام بطور سینہ گزٹ پارٹی رہنماؤں تک پہنچ رہا ہے لیکن مسلم لیگ کے کارکن اب بھی کنفیوز ہیں کہ کس طرف جائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف کے نظریے کو مسلم لیگ ن اور خصوصاً پارلیمانی پارٹی میں پزیرائی مل رہی ہے کیونکہ مسلم لیگ کبھی بھی مزاحمت یا اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نہیں رہی۔ لیکن سیاست میں ہمیشہ واضع موقف کی جیت رہی ہے اور شہباز شریف کو اس لکا چھپی سے باہر نکل کر واضع موقف اپنانا ہوگا۔ 
یہ بھی المیہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی گود میں پلنے والے نواز شریف نظریاتی طور پر اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے کٹٹر مخالف بن گئے ہیں۔ ان کی بیٹی مریم نواز والد کے ہم قدم چلتے ہوئے افواج پاکستان کی قیادت کو نام لے کر بار بار تنقید کانشانہ بنا رہی ہیں اور پوری مسلم لیگ خاموش ہے۔ اسی خاموشی یا اشیر باد کی بنا پر مریم نواز نے فوج کی قیادت کے خلاف مسلسل بیان بازی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس خاموشی پر نواز شریف گروپ کا دعویٰ ہے کہ پوری مسلم لیگ بشمول شہباز شریف گروپ کے مریم نواز کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریے کا ہمنوا ہے کیونکہ کسی طرف سے بھی 
اس کی مذمت یا مخالفت نہیں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ خاموشی اور کسی معاملے کی مخالفت نہ کرنا بھی اس کی تائید ہی ہوتا ہے۔ جبکہ شہباز شریف گروپ کا دعوی ہے کہ مسلم لیگ کا نظریہ اداروں کے خلاف نہیں اور اس حساس معاملے کو زیر بحث لا کر ہم مزید تنازع نہیں چاہتے۔ 
ویسے اس دلیل میں وزن ہے کیونکہ شہباز شریف ہفتہ کو مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد جب میڈیا کے سامنے آئے تو مسلم لیگ ن کے ایک دھڑے کے فوج مخالف بیانات پر اپنا موقف دے سکتے تھے۔ لیکن خاموش رہے۔ البتہ لانگ مارچ کے سوال پر وہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کر گئے اور مولانا کے اسلام آباد کی طرف سیاسی لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکالتے ہوئے اسے مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ قرار دے دیا۔ یعنی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ شہباز شریف نے فوری انتخابات کا شوشہ چھوڑ کر میڈیا کی توجہ ایک نئے ایشو کی طرف کروا دی۔ پی ڈی ایم کے اتحاد یا فوج مخالف بیانات پر بات کرنا بھی گوارہ نہ کی اس سے ان کی ترجیحات کا اندزہ ہوتا ہے یا در پردہ کوئی اور کھیل کھیلا جا رہا ہے۔جب مریم نواز کے فوج مخالف بیانات پر سوال ہوا تو جواب دینے کی بجاے بھاگ لیے۔ اس ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمان میں بھی وہ ولولہ نہ تھا۔
 یقیناً بات اب مفاہمتی یا مزاحمتی بیانیے سے ہٹ کر تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس طرح مریم نواز مسلسل ٹکراؤ کی طرف جا رہی ہیں اس سے ان کی پارٹی کے لیڈران شدید مضطرب ہیں کیونکہ فوج یا اداروں سے ٹکرانا مسلم لیگ ن کے لیے ہمیشہ تباہ کن رہا ہے۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کو کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں اور ایک ٹولہ پارٹی لیڈرشپ کو مسلسل گمراہ کر رہا ہے۔ اگر مسلم لیگ کے ماضی کو دیکھا جاے تو جب جب اس نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی اسے منہ کی کھانی پڑی حتی کہ دو بار کے ہیوی مینڈیٹ کے باوجود بھی حکومتی مدت پوری نہ ہو سکی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مضطرب رہنما اس صورتحال پر اپنے اپنے اجلاس بلا کر صورتحال کو زیر بحث لا رہے ہیں۔گو کہ ایسے اجلاس کئی اضلاع میں ہوئے لیکن ان میں سے خواجہ سعد رفیق کے گھر ہونے والے اجلاس کو کافی پزیرائی ملی۔ پارٹی کے پرانے لوگ اس صورتحال کا ذمہ دار شہباز شریف کو قرار دے رہے ہیں کیونکہ ابھی تک شہباز شریف گو مگو کی کیفیت میں ہیں اور نواز شریف کی طرح واضع موقف نہیں لے پا رہے۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہماری طرح ورکر بھی تضاد کا شکار ہے کہ کس طرف جاے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ مخالفت ان کی گھٹی ہی میں کبھی نہیں رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی دیوار سے ٹکر مارنے کی بجائے اس کی حقیقت کو مان لیں کہ 2023 کے انتخابات میں مریم یانواز شریف نہیں ہیں۔ اس بات کو مریم نواز کی اپیل میں اداروں کو خواہ مخواہ گھسیٹنے نے بھی ثابت کر دیا ہے۔ لیکن نواز شریف گروپ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر مریم نواز کے مختلف پارٹی رہنماؤں کے گروپوں میں اجلاسوں پر بھی شدید برہمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ لیکن یہ سب معاملات برہمی یا خاموشی سے طے نہ ہوں گے مسلم لیگ کو 2023 کے انتخابات سے قبل واضع اور دوٹوک موقف لینا ہو گا کہ وہ کس طرف کھڑی ہے۔ 
قارئین اپنی رائے کا اظہار اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔

مزیدخبریں