حکومت میں آنے سے پہلے تحریکِ انصاف کا مرادسعید کہا کرتا تھا کہ عمران خاں آئے گی، کرپشن کا لوٹا ہوا 200 ارب واپس لائے گی اور بیرونی قرضے اتارے گی۔ خود وزیرِاعظم بھی احتساب کا نعرہ لگا کر ہی حکومت میں آئے۔ اُن کا وعدہ تھا کہ بلاامتیاز احتساب ہوگا۔ حکومت میں آنے کے بعد بھی وزیرِاعظم کی کوئی تقریر احتساب کے بغیر نہیں مکمل ہوتی۔ وہ تو بیرونی ممالک کے دوروں کے دوران بھی احتساب کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔اُنہوں نے تو پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں ہی کہا کہ لوٹا گیا پیسہ واپس لائیں گے اور سب کا کڑا احتساب ہوگا۔ پھر جب اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف گرفتار ہوئے تو وزیرِاعظم نے 7 اکتوبر 2018ء کو کہا کہ اگر نیب اُن کے ماتحت ہوتی تو اپوزیشن کے پچاس لیڈروں کو گرفتار کرتے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو شہبازشریف کے لیے آواز اُٹھا رہے ہیں، اُن کا نام بھی آنے والا ہے۔ پھر ہوا یوں کہ شیخ رشید اور فوادچودھری جیسے وزیر پہلے ہی بتا دیتے کہ اپوزیشن کے فلاح لیڈر کی گرفتاری ہونے والی ہے۔ اِنہی بیانات کی وجہ سے اپوزیشن کا ”نیب نیازی گٹھ جوڑ“ کا بیانیہ سامنے آیا اور اپوزیشن کے رَہنماء یکے بعد دیگرے گرفتار ہوتے گئے۔ نوازلیگ کے میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلیمان رفیق، خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ کے علاوہ پیپلزپارٹی کے بھی کئی لیڈر گرفتار ہوئے۔ یہ رَہنماء مہینوں تک پابندِسلاسل رہے لیکن اِن پر کرپشن کا کوئی ایک الزام بھی ثابت نہ ہوسکا۔ 14 فروری 2019ء کو لاہور ہائیکورٹ نے میاں شہبازشریف کو آشیانہ اور رمضان شوگر مِل کیس میں ضمانت پر رہا کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایک انچ بھی سرکاری زمین کسی کے نام منتقل ہوئی، نہ کوئی ایک بھی متاثرہ شخص میاں شہبازشریف کے خلاف پیش ہوا۔ میاں شہبازشریف 10 ماہ اور حمزہ شہباز لگ بھگ 2 سال تک بغیر کسی ثبوت کے جیل میں رہے۔
بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف کا کڑے احتساب کا بیانیہ مکمل طور پر پِٹ چکا ہے البتہ نیب کی وجہ سے خوف کی فضا تاحال قائم ہے جس سے کاروبارِ زندگی ٹھَپ ہو کے رہ گیا۔ بیوروکریسی اِس خوف کے پیشِ نظر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے کہ کسی ناکردہ گناہ کے جرم میں جیل کی ہوا نہ کھانی پڑے۔ کاروباری طبقہ بھی کسی نئے کام کو ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں نیب کی لٹکتی تلوار نے اپنا بھرپور اثر دکھایا۔ اُدھر ایک تو وزیرِاعظم کی نا اہل ٹیم اور دوسرے نیب اور ایف آئی اے کے خوف نے ملک کو اِس حال پہ پہنچا دیا ہے کہ وزارتِ خزانہ کی اپنی رپورٹ کے
مطابق 2021ء تک ملکی مجموعی قرضہ 253 ارب ڈالر تک پہنچ چکا جبکہ گزشتہ برس اِسی قرضے کا حجم 216 ارب ڈالرز تھا۔ گویا صرف ایک سال میں 37 ارب ڈالر قرضے کا اضافہ ہوا۔ آج ڈالر 170 روپے سے تجاوز کرچکااور ماہرین کے مطابق 2021ء کے اختتام تک ڈالر 200 روپے کی حد کو چھو لے گا۔ اِسی وجہ سے قوم کومہنگائی کے ایسے طوفانِ بلاخیز کا سامنا ہے جس نے جینا دوبھر کر دیا ہے لیکن وزیرِاعظم کا پھر بھی فرمان کہ گھبرانا نہیں، اچھے دن آنے والے ہیں۔ قوم سوال کرتی ہے کہ جب ساڑھے تین سالوں میں حکومت مہنگائی کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو اگلے ڈیڑھ سال میں کیا تیر مار لے گی۔سچ یہی کہ قوم کو آتشِ شکم کی سیری کے لیے نانِ جویں درکار ہے، اُسے اِس سے کیا غرض کہ چیئرمین نیب رہے یا گھر جائے۔
اگر صدارتی آرڈیننس جاری نہ ہوتا تو آج قوم کو موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال سے چھٹکارا مل چکا ہوتا لیکن حکومت بھلا اپنی ”دودھاری تلوار“ سے ہاتھ دھونا پسند کیوں کرتی۔ اِسی لیے آرڈیننسز کے سہارے چلنے والی اِس حکومت نے احتساب کا دوسرا ترمیمی آرڈیننس 2021ء جاری کر دیا ہے جس کے مطابق صدرِمملکت موجودہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع یا اُس کا دوبارہ انتخاب کر سکیں گے۔ آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ نئے چیئرمین نیب کے تقرر تک موجودہ چیئرمین ہی اپنے تمامتر اختیارات کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں گے۔ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی جانب سے اِس نئے آرڈیننس کو کالا قانون قرار دے کر مسترد کر دیا گیا ہے اور ہر فورم پر اِس کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ جب حکومت موجودہ چیئرمین نیب کو ہی برقرار رکھنے پر بضد ہو گی تو لامحالہ ”نیب نیازی گٹھ جوڑ“ کا تاثر اُبھرے گا۔ ایسے میں بہتر تو یہی تھاکہ آئین کے عین مطابق وزیرِاعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے نئے چیئرمین نیب کا انتخاب ہوتا لیکن یہاں بھی وزیرِاعظم کی ضِد آڑے آئی۔ وہ اپوزیشن سے مشاورت تو دور کی بات، ہاتھ ملانا تک پسند نہیں کرتے۔ اُدھر حکومتی وزراء انتہائی فضول اور نامعقول بہانے طرازیوں میں مصروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈرپر چونکہ الزامات ہیں اِس لیے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے معاملے پر اُن سے مشاورت نہیں ہو سکتی۔ فوادچودھری ہر روز یہی بیان داغتے رہتے ہیں حالانکہ وہ خود بھی وکیل ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ میاں شہبازشریف ملزم ہیں، مجرم نہیں اور جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے قانون کی نظر میں میاں صاحب بے گناہ ہی قرار پائیں گے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے تحریکِ انصاف جھوٹ کی آڑھت سجائے بیٹھی ہے۔ اُدھر اپوزیشن اتنی کمزور اور بکھری ہوئی کہ حکومت کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ حکمرانوں نے آئینی ترمیم شرمیم کی کتاب بند کرکے صدارتی آرڈیننسز کا سہارا لے رکھا ہے۔ اِس لیے اِس پارلیمنٹ کو نام نہاد تو کہا جا سکتا ہے، بااختیار نہیں۔ جو بہانہ میاں شہبازشریف سے مشاورت نہ کرنے کا بنایا جا رہا ہے، اُس کی زَد میں تو خود کئی وزیرشزیر بھی آتے ہیں۔ فوادچودھری ”پنڈورا پیپرز“ کا مطالعہ کرکے دیکھیں جن میں پی ٹی آئی کے کئی وزیروں مشیروں اور قریبی افراد کے نام موجود ہیں۔ اِس کے باوجود وہ اپنے اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔ اگر میاں شہبازشریف سے مشاورت نہ کرنے کا یہی بہانہ ہے کہ وہ ملزم ہیں تو پھر ملزم تو یہ وزیر مشیر بھی ہیں، اِنہیں فارغ کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ آٹا اور چینی سکینڈل میں بھی کئی حکومتی رَہنماء ملوث ہیں، اُن پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا؟۔ کیا احتساب کی دودھاری تلوار صرف اپوزیشن کا گلا کاٹنے کے لیے ہے؟۔ کیا احتساب اِسی کا نام ہے؟۔ کیا تحریکِ انصاف کا یہی انصاف ہے جس کا نعرہ لگا کر وہ حکومت میں آئی؟۔
نیب کے ترمیمی آرڈیننس کو تو یقیناََ اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا جن کا فیصلہ آئین کے مطابق ہی ہوگاالبتہ یہ حیران کُن کہ اِس ترمیمی آرڈیننس میں نیب کو تقریباََ بے اختیار کر دیا گیا ہے۔ اِس ترمیمی آرڈیننس کے مطابق ”نیب قانون“ کا اطلاق وفاقی اور صوبائی کابینہ، کمیٹیوں اور ذیلی کمیٹیوں پر نہیں ہوگا۔ گویا یہ نیب کے دائرہئ اختیار سے باہر ہوں گے۔ نجی کاروبار، افراد اور بینک مقدمات کو بھی نیب کے دائرہئ اختیار سے خارج کر دیا گیا ہے۔ این ایف سی، سی ڈی ڈبلیوپی، این ای سی اور ایکنک کے علاوہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے بھی نیب کے دائرہئ اخٹیار میں نہیں ہوں گے۔ وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکسیشن کے معاملات بھی نیب قانون سے باہر ہوں گے۔ اِس آرڈیننس کے تحت نیب صرف سکڑسمٹ کرمنحنی سی نہیں ہوگئی بلکہ صدرِمملکت ملک میں جتنی چاہیں گے، احتساب عدالتیں قائم کر سکیں گے۔ اِن عدالتوں کے ججوں کا تقرر صدرِمملکت ہائی کورٹ کی مشاورت سے کریں گے۔ یہ تقرر 3 سال کے لیے ہوگا۔ آرڈیننس کے تحت نیب سے متعلقہ جرائم میں صرف احتساب عدالت کے پاس ضمانت یا مجرم کی رہائی کا اختیار ہوگا اور صرف کرپشن کی رقم کے مساوی زَرِضمانت جمع کرانے پر ہی ضمانت مل سکے گی۔ یقیناََ اِس نئے نیب آرڈیننس کا فائدہ اپوزیشن کو بھی ہوگا لیکن شاید اپوزیشن کا خیال یہ ہو کہ حکومت نے اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے نیب کو تقریباََ بے اختیار کرنے کی سعی کی ہے اِس لیے اِس کی مخالفت ضروری تاکہ کل کلاں وہ بھی حکمرانوں کے خلاف نیب کا شکنجہ کَستے ہوئے دیکھ سکیں۔