حالیہ چند سال میں ہماری سیاست، سماج، معیشت، معاشرت، باہمی روابط، روایات، ہم آہنگی، اجتماعی اور انفرادی فکر میں ایسی سونامی دھر آئی ہے کہ سب کچھ تہہ و بالا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کا سبب ہٹ دھرمی، جھوٹ، بہتان، نفرت اور کثرت کی خواہش ہے۔ پیپلز پارٹی کی ساری جدوجہد آئین کی حکمرانی اور اداروں کی سیاست میں عدم مداخلت کے لیے رہی جس کی قیمت چکانا آج تاریخ بن گیا۔ اس کے بعد ن لیگ نے اپنی سیاسی فکر بدلی اور وہ بھی اداروں کی غیر جانبداری کی دعویدار بنی پھر جو ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے مگر عمران نیازی اور پی ٹی آئی کی تحریک، مارچ، دھرنا اس لیے رہا ہے اور جاری ہے کہ ادارے مداخلت کریں اور عمران خان جو ملکی قیادت میں تیسرے چوتھے نمبر پر آتے ہیں کو وزیراعظم کے عہدے پر بٹھا دیں۔ عمران خان کے سیاست میں آنے اور ان کو مسلط کرنے کے بعد سیاست نہیں، انسان انسان کا شکار کرتا نظر آیا۔ جھوٹ کو منشور بنا دیا گیا عمران نیازی کا طرز سیاست ہے کہ جھوٹ بولو جواب میں سچ آئے اور موضوع بنے۔ اس طرح یہ موضوع میں رہنے کے ماہر ہیں۔ اتنا جھوٹ بولا، اتنا جھوٹ بولا کہ قومی ادارے کے دو اعلیٰ افسران کو سامنے آ کر کہنا پڑا کہ جھوٹ اتنی روانی اور فراوانی کے ساتھ بولا گیا کہ سچ کا خاموش رہنا مناسب نہ رہا۔ دراصل جھوٹ صرف روانی، فراوانی، ارزانی سے ہی نہیں بے شرمی، بے حیائی کی حدیں بھی عبور کر گیا۔ حد یہ ہے کہ موصوف پر حملہ ہوا جس میں لگنے والی گولیوں کی تعداد کا تعین تک نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، شوکت خانم کے ڈاکٹر مضروب عمران خان اور عینی شاہد مختلف بلکہ ایک دوسرے کے برعکس صورت حال بتاتے ہیں۔ 70 سالہ بوڑھا بندہ چار گولیاں لگنے کے بعد وزیرآباد سے شوکت خانم آئے راستے میں کوئی ہسپتال آئے نہ کوئی رجوع ہو، کیا یہ عقل مانتی ہے۔ سب سے پہلے تو تفتیش اس بات کی ہونی چاہئے کہ یہ کیا ڈرامہ تھا! ایک بے گناہ کی زندگی چلی گئی، بچے مقتول باپ کو اٹھاتے رہے، ان کو خون بہا تو دے دیا گیا مگر کیا کوئی ان بچوں کا باپ واپس دے سکے گا؟ عمران خان کی انتقامی سیاست نے اس مقتول کا مقدمہ بھی خراب کر دیا۔ دراصل مدعی بننے کے بجائے موصوف تفتیشی بنے ہوئے ہیں۔ اعجاز چودھری نے بقول اس کے
احمد چٹھہ کو فون کیا تھا کہ وزیر آباد میں حملہ ہو گا، سے تفتیش شروع ہونی چاہئے۔ عمران خان کی سیاست کی بنیاد ہی نفرت ہے جو اس نے اپنے فالوورز میں سرایت کر دی ہے وہ دلیل سننا گوارا نہیں کرتے۔ اداروں کے غیر جانبدار ہونے سے ان کے وقار اور عوام میں حمایت میں اضافہ ہوا، صرف آوارہ اور بے دلیل لوگ جو ذہنی طور پر نابالغ ہیں، ذہنی مفلوج اور مریض ہیں ان کا معاملہ کچھ اور ہے۔ یہ جو تجزیہ کار اور چند پرانی فلمیں ٹوئٹر پر آ کر عمرانی سیاست کی حمایت کرتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ عمران سوشل میڈیا اور ٹوئٹر کا لیڈر ہے اس کی ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر حمایت ان کی ریٹنگ اور فالوئنگ میں اضافہ کرے گی۔ آنے والے وقت میں جب انتخابات کا موسم آئے گا عمران نیازی شاید چوتھے نمبر پر بھی نہ ہو، نوازشریف کی واپسی اور پیپلز پارٹی کے Come back اور دوبارہ عروج پر عمران نیازی اخبارات کے فرنٹ پیج سے فلمی صفحہ تک محدود ہوں گے۔ پی ٹی آئی کی شکل تبدیل ہو چکی ہو گی ان کے سرخیل دوسری جماعتوں میں نظر آئیں گے کچھ اپنے پونے چار سالہ دور کی سیاہ کاریوں کے نتیجے میں جیل میں ہوں گے۔ آہ و بکا اور چیخ و پکار کرتے ہوئے جب جذباتی جنونی خواتین و مرد تھانوں اور جیلوں کے اندر باہر نظر آئیں گے تو پھر نوازشریف، مریم نواز، آصف زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو، مولانا فضل الرحمن، جناب بھٹو صاحب کی قربانیاں یاد آئیں گی مگر افراتفری کی دھول نے معاشرت کی صورت گری ایسی کر دی کہ مایوسی اور لاقانونیت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ جب ریاست اور فرد کا رشتہ کمزور پڑ جائے تو ریاست کا باقی رہنا ممکن نہیں رہتا جب قوم مایوس ہو جائے تو کبھی اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتی۔ یہ دونوں حادثات عمران خان کی وجہ سے قوم کا مقدر بنتے دکھائی دینے لگے۔ عصر حاضر کی سب سے بڑی خوشخبری ہے کہ ادارے غیر جانبدار ہیں اور اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر آنے والے مایوس ہیں۔ عمران خان پر حملہ کا مقدمہ خود عمران خان نے خراب کیا پنجاب میں ان کی حکومت ہے اور وقوعہ بھی پنجاب میں وزیراعلیٰ کے ڈویژن میں ہوا پھر یہ شکوہ کس پر کرتے ہیں۔ دراصل ان کے جھوٹ اور غیر سنجیدہ، انتقام اور نفرت پر مبنی سیاست کا بوجھ ان کا اپنا وزیراعلیٰ بھی نہیں اٹھا سکا۔ مگر اس ساری صورت حال میں عوام خوار ہو گئے۔ سرکاری ادارے برباد ہو گئے۔ ماتحت عدلیہ کا بُرا حال ہے سپیشل کورٹس میں من مانی چلنے لگی جن میں کسٹم ٹربیونل سرفہرست ہیں۔ 12/14 کروڑ کے صوبے کا وزیراعلیٰ ریموٹ کنٹرول ہو، چیف سیکرٹری کام نہ کرے، آئی جی پولیس معذرت کرے، نیچے تمام انتظامیہ بے مہار ہو تو عوام کا کون پُرسان حال ہو گا۔ دوسری جانب نجی یا نیم سرکاری ادارے اپنے ہی قوانین کی پاسداری نہ کریں تو اس ملک معاشرت کی حالت کون بیان کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی وی، کسٹم ٹریبونل، پیکو، پی ٹی سی ایل، سٹیل ملز اور دیگر ایسے اداروں میں وقت کی حکومتیں اپنے من پسند لوگوں کو بہت زیادہ تنخواہ اور مراعات کے ساتھ نوازتی رہتی ہیں، مگر کسی کا بے روزگار ہو جانا اور پھر اس دور میں یہ قیامت سے کم نہیں حالیہ مہینوں میں پی ٹی سی ایل کے 250 افراد کو بورڈ آف گورنرز کی منظوری یا باضابطہ کارروائی کے بغیر بلکہ انسانی بنیادی حقوق کو بالائے طاق رکھ کر نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ چیف ایگزیکٹو کی تنخواہ 27 لاکھ روپے کر دی گئی، ریٹائرڈ لوگوں اور ذاتی دوستوں کو نوازا گیا جن کی تنخواہیں 5 لاکھ سے 27 لاکھ تک اور پی ٹی سی ایل کے انفراسٹرکچر کی مد میں جو چمک ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اتصلات ارباب اختیار اس بات سے بے خبر ہوں گے کہ پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ قانون ضابطے کو بروئے کار لائے بغیر لوگوں کا معاشی قتل عام کر رہے ہیں جو آج کے دور میں حقیقی قتل عام ہے 250 افراد کا بے روزگار ہونا دراصل ہزاروں افراد کو رزق روٹی سے محروم کرنا ہے جس میں عورتیں، بوڑھے، بچے اور بیمار سب آتے ہیں یہ تو ایک مثال ہے تقریباً ہر ادارے وہ نجی ہو یا سرکاری اس میں اس وقت ان کے اپنے اور ملکی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ایک افراتفری ہے جس کا کسی کو ادراک ہے نہ ملک و قوم کے کل کی فکر۔ جن لوگوں کو بے روزگار کر دیا گیا ان سے حب الوطنی کے تقاضے زیادتی ہے۔ پی ٹی سی ایل سے تو نہیں البتہ اتصلات کے ارباب اختیار سے امید ہے کہ وہ نظرثانی کر کے 250 افراد کو روزگار مہیا کریں گے گو کہ اس کا وطن عزیز میں پھیلی ہوئی افراتفری پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن 250 خاندانوں کے دکھوں کا ازالہ ہو سکے گا۔ فی الحال عمران کی مصنوعی سیاست، مصنوعی مقبولیت اور حقیقی افراتفری کو بھگتیں اور دعا کریں کہ اللہ وطن عزیز کی خیر کرے۔ عمران بھارت کی زبان بن کر سامنے آئے ہیں جبکہ وطن عزیز میں انسان انسان کے شکار کی ٹھان چکا اور افراتفری رائج ہو چکی۔