قائداعظمؒ صدارتی نظام کو پسند کرتے تھے یا پارلیمانی نظام کو اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ان کی زندگی میں ہی مقرر ہونے والے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کے خدوخال ابتدائی پارلیمانی نظام سے ملتے جلتے تھے۔ اس کے علاوہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء سے قبل جتنی بھی سول حکومتیں برسراقتدار رہیں وہ کسی نہ کسی طرح پارلیمانی نظام کے ہی قریب تھیں۔ موجودہ آئین بھی مکمل طور پر پارلیمانی نظام کی حمایت کرتا ہے لیکن 1973ء میں اِس کے نفاذ سے اب تک جتنی بھی سول حکومتیں قائم ہوئیں وہ ذلیل و خوار ہی ہوئیں اور پارلیمانی نظام کی بدنامی کا باعث بنیں۔ اب تحریک انصاف کی موجودہ اِم میچور حکومت کی ناکامیوں کو لے کر پارلیمانی نظام حکومت کو مکمل ناکارہ نظام حکومت کہنے کی صدائیں بہت بلند ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف پارلیمانی نظام کی حمایت کرنے والے صدارتی نظام کی خوف ناکیاں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو صدارتی نظام کے ناقدین کا رویہ بھی متعصبانہ ہے کیونکہ اُن کے پاس پاکستان میں صدارتی نظا م کی مثالوں کے لیے صرف چار مارشل لاء ڈکٹیٹر ہی ہیں۔ دنیا بھر میں فرانس، امریکہ اور ترکی سمیت تقریباً 50 ممالک میں سول صدارتی نظام بڑی خوبی سے چل رہا ہے جبکہ تقریباً 72 ممالک میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ اس تناسب کو سامنے رکھا جائے تو حقیقی سول صدارتی نظا م بھی برا نہیں جیسا کہ ہمارے مارشل لاء ڈکٹیٹروں کا صدارتی نظام بُرا تھا۔ اوپر کی گئی باتیں عقلی دلیلوں کی ہیں لیکن گلی محلوں میں پھرنے والے بنجاروں کی چہ میگوئیاں بتاتی ہیں کہ تحریک انصاف جیسی کم اہل سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کا ایک مقصد پارلیمانی نظام کو باہر کا راستہ دکھانا تھا۔ اُن کے مطابق اقتدار حاصل کرنے کے بعد جلد ہی ناکام ہو جانے والی پی ٹی آئی کی حکومت پارلیمانی نظام کی مکمل ناکامی کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام کا ڈھانچہ 1973ء کے آئین سے جڑا ہوا ہے۔ یہ آئین پیپلز پارٹی کا بے بی ہے۔ اسی لیے وہ اس پر کٹ مرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی محبت 1973ء کے آئین میں موجود پارلیمانی نظام سے زیادہ اُن کی اپنی بقا سے ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کا پارلیمانی نظام کے حق میں اعلان جہاد فطری بات لگتی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے مالکان زرداری اینڈ سن کسی بھی موڑ پر کسی بھی وجہ سے موڑ لے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن پارلیمانی نظام کے حق میں اگر ہے بھی تو زیادہ موثر نہیں کیونکہ اُن کے مزاج میں سڑکوں پر احتجاج شامل نہیں ہے۔ اس لیے وہ نیک تمنائوں اور دعائوں پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ اگر سیٹ اپ میں تبدیلی ہوئی تو نواز شریف یا شہباز شریف پارلیمانی نظام کے علاوہ کسی دوسرے سول نظام کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن اُن کی نئی نسل مریم نواز اور حمزہ شہباز بمع اہل خانہ نئے نظام میں فٹ ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی چند قوم پرست جماعتیں جن میں اے این پی یا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی وغیرہ شامل ہیں پارلیمانی نظام کے حق میں بیانات یا ڈی چوک پر مختصر سا دھرنا دے کر محض جمہوری قرض اتارنے کا دکھاوا کرسکتی ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی، ق لیگ، سندھ کی قوم پرست جماعتیں، شیخ رشید، جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان سمیت تقریباً تمام سیاسی مذہبی جماعتیں اور دوسری چھوٹی بڑی جماعتیں اپنا حصہ بقدر جثہ حاصل کرنے کی خاطر صدارتی نظام کو طاقت بخشنے کے لیے طاقت وروں کا ساتھ دیں گی۔ اِس سب کو کل ملا کر دیکھا جائے تو پارلیمانی نظام کے حق میں کمزوری ہی کمزوری ہے۔ معاملہ جو بھی ہو اس بات کی بہت زیادہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں صاف شفاف پارلیمانی نظام کی جگہ آلودہ پارلیمانی نظام حکومت کا خمیر کس نے لگایا۔ کیا یہ جلد بازی یا بدنیتی کا عمل تھا؟ کیا یہ برطانیہ یا اُس جیسے کسی دوسرے ملک کی دانستہ بھونڈی تقلید تھی؟ یا یہ کہ کسی خفیہ ایجنڈے پر عمل درآمد کا راستہ تھا؟ ’’ایک دفعہ پانچ بندروں کو پنجرے میں اکٹھے بند کردیا گیا۔ بندروں کی پہنچ سے دور چھت پر کیلے رکھ دیئے گئے جن کے ساتھ ایک سیڑھی لٹکا دی گئی۔ جونہی اُن پانچوں بندروں میں سے کوئی ایک بھی سیڑھی چڑھ کر کیلے حاصل کرنے کی کوشش کرتا، اُس سمیت باقی چاروں بندروں پر بھی برفیلا ٹھنڈا پانی پھینکا جاتا۔ کچھ دنوں بعد اُن پانچوں بندروں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر ہم میں سے کوئی بھی کیلے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو باقی سب پر بھی برفیلا ٹھنڈا پانی ڈالا جائے گا۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ ٹھنڈا پانی پھینکنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کیونکہ اب کوئی بھی بندر کیلے حاصل کرنے کے لیے سیڑھی نہ چڑھتا۔ اب اُن پانچ بندروں میں سے ایک بندر کی جگہ نیا بندر تبدیل کردیا گیا۔ نئے بندر کو برفیلے ٹھنڈے پانی کا تجربہ نہیں تھا اس لیے اُس نے کیلے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اُسی لمحے برفیلے ٹھنڈے پانی سے خوف زدہ پرانے چاروں بندروں نے نئے بندر کو کیلے حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اُس کی پٹائی شروع کردی۔ یہاں تک کہ نئے بندر نے بھی مار کے ڈر سے کیلے حاصل کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ ایک ایک کرکے پرانے پانچوں بندر نئے بندروں سے تبدیل کردیئے گئے۔ جب بھی نیا بندر کیلے حاصل کرنے کی کوشش کرتا باقی بندر مل کر اُسے مارتے یہاں تک کہ وہ اس حرکت سے باز آجاتا۔ آخرکار پنجرے میں اب سارے کے سارے وہ پانچ بندر تھے جنہیں کیلے حاصل کرنے کی سزا کے طور پر برفیلے ٹھنڈے پانی کا تجربہ نہیں تھا لیکن اُن میں سے کوئی بھی پٹائی کے خوف سے کیلے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ گویا اُن پانچوں بندروں نے یہ سبق یاد کرلیا کہ انہیں کیلے حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ اُن بندروں میں سے یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اصل معاملہ کہاں سے شروع ہوا اور کیلے حاصل کرنے کی خواہش پر اُس کے باقی ساتھی اُسے کیوں مارتے ہیں‘‘۔ لگتا ہے ہمارے سیاسی پنجرے میں بھی پارلیمانی نظام کی خواہش پر برفیلے ٹھنڈے پانی کی سزا پانے والے آخری لوگوں کو بھی نئے لوگوں سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔