انسان اپنی تنہائی کا خود عارف ہوتا ہے۔ تنہائی کے تجزیے سے تزکیے کا امکان اور سامان پیدا ہو سکتا ہے۔ تنہائی جس قدر پاک اور پوتر ہوگی ٗ انسانی نفس تزکیے کے اُسی قدر قریب ہوگا۔ تقویٰ سے پہلے تزکیہ ہے۔ تقویٰ ٗ تزکیے کا ثمر معلوم ہوتا ہے۔ ہم خواہشات کے نرغے میں محبوس ہیں یا پھر خواہشات سے آزاد؟ …ہماری تنہائی اس کا میزان ہے۔ اگر میں مجمعے میں ترکِ دنیا کا درس دیتا ہوں اور تنہائی میں اپنے اثاثوں کی فکر میں غرق ہوں‘ تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ میں ایک دنیا دار آدمی ہوں۔ اگر میں مسندِ جلوت پر زہد کی نمائندگی کرتاہوں اورمیری خلوت شہوات ولذات میں منہمک ہے ‘ تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ درسِ زہد میری ایک معاشرتی مجبوری ہے… زاہد و عابد لوگوں کی محفل میری شناخت بن چکی ہے‘ اس لیے اس شناخت کا خراج لینے کے لیے زبانی کلامی دروسِ زہد بھی میری مجبوری بن چکی ہیں۔ اگر میں کوئے ملامت میں قدم رکھنے سے گریز کرتا ہوں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ میری نظر خوگرِ پیکرِ محسوس ہے۔ اگر میں مجمعے میں شہرت سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے اور تنہائی میں شہرت کی تدبیر کرتا ہوں‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں عزت کے بجائے شہرت کا طلب گار ہوں۔ عزت‘ صرف عزت داروں میں ہوتی ہے… اور لازم نہیں کہ عزت دار مال دار بھی ہو اور منصب دار بھی۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے کہ اگر تم عزت چاہتے ہو تو جان لو کہ ساری کی ساری عزت اللہ اور اس کے رسولؐ کے پاس ہے۔ یعنی سب سے زیادہ عزت والی ذات اللہ سبحانہ تعالی کی ہے، پھر اللہ کے محبوبؐ کی اور پھر اُن کی جنہیں وہؐ محبوب رکھیں۔ سورۃ ’’الحجرات ‘‘ کی ایک فکر و نظر کو چونکا دیتی ہے، اگرچہ بچپن سے پچپن تک بے شمار مرتبہ اِس سے گزرے لیکن یوں لگتا ہے کہ ہر بار سرسری گزرے، اِس عالمِ پیری میں جب یہ آیت دل پر گزری تو معلوم ہوا کہ یہ آیت درحقیقت انذار کی آیت ہے … اور زبردست کی طرف سے ایک زبردست وارننگ والی آیت ہے۔’’ اِنّ اکرمکم عندااللہ اتقاکم ‘‘…’’بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے ‘جو تقویٰ والا ہے‘‘۔ یعنی لازم نہیں کہ معاشرے میں عزت و اکرام پانے والا‘اللہ کے نزدیک بھی صاحبِ تکریم ہو،اور معاشرے میں ملامت کا بوجھ اٹھانے والا لازم نہیں کہ اللہ کے ہاں بھی ہلکا سمجھا گیا ہو۔ گویا باطن ظاہر کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ عین ممکن ہے ٗ ایک شخص چیتھڑوں میں ملبوس ہو اور وہ کسی محفل میں جائے تو لوگ اس کے لیے جگہ خالی نہ کریں‘ لیکن وہ ایسا مقبولِ بارگاہ ہو کہ اُس کی دعا سے بارش برسے۔ یعنی معمولی نظر آنے والا ‘اتنا غیر معمولی ہو سکتا ہے کہ ِاس کی سفارش پر اللہ اپنے بندوں پر مہربانی کرتا ہے۔ یہاں سفارش چلتی ہے ٗوہاں شفاعت چلتی نظر آئے گی۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں اپنے ولی کی سفارش اور اپنے محبوب نبیؐ کی شفاعت کا حقدار بنا دے!!
تنہائی کی طرف واپس چلتے ہیں…کہ ہم یہاں آئے بھی تنہائی سے ہیں۔ زندگی سے پہلے بھی تنہائی تھی اور زندگی کے بعد بھی تنہائی ہوگی۔ قبر ایک گوشہ تنہائی ہی تو ہے۔خلوت میں ہم آزاد ہوتے ہیں اور جلوت میں قیدو بند کا شکار ہوتے ہیں۔ ستم یہ کہ ہم آزادی کو قید تصور کرتے ہیں‘ اور قیدو بند کو آزادی کی پری سمجھے بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خلوت میں آزاد ہوتا ہے… اپنے خیال نیت اور فکر قائم کرنے میں وہ مکمل طور پر آزاد ہے۔ یہ آزادی ہی ہمارا امتحان ہے… اور یہ زندگی ایک کمرہِ امتحان!! ’’الستُ بربکم‘‘ کی تکمیل اور تصدیق کے لیے ہمیں یہاں بھیجا گیا ہے۔ ’’یوم الستُ ‘‘ کس نے ’’'بلیٰ‘‘ طوعا ًکہا اور کس نے کرہاً …اِس کی تصدیق اِسی دنیا میں ہو جاتی ہے۔
لذت شناس کر کے شرابِ الست سے
کیوں آج قطرہ قطرہ کو ترسا رہے ہیں آپ
تنہائی مثلِ آئینہ ہے… اور اسی آئینے میں ہمارا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔ اگر میں مجمعے میں لوگوں کو معافی کا درس دیتا ہوں اور تنہائی میں اپنے حاسدوں کے خلاف نبرد آزما رہتا ہوں‘ تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ محبت کا پیام بر نہیں ہوں میں، بلکہ اہلِ محبت کی محفل میری معاشری ضرورت ہے … اِس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ میں محفل میں نظر تو آتا ہوں لیکن محفل کا حصہ نہیں بنتا۔ تنہائی میں عیاں ہونے والا چہرہ اگر خوبصورت نہیں‘ تو مجھے توبہ کرنے کا حکم ہے۔ میری مجلس خوشبودار ہو اور میری تنہائی خوشبو سے دُور ہوں ‘ تو منافقت کے سوا میری شناخت کا عنوان کیا ہو سکتا ہے۔ آج جن لوگوں کی تربت خوشبودار ہے ٗ زندگی میں اُن کی قربت بھی خوشبودار تھی، کیونکہ اُن کی تنہائی خوشبودار تھی۔ موت اور قیامت ہمارے باطن کو ظاہر کرنے کے اسباب ہیں۔ حدیث ِ مبارکہ میں آتا ہے کہ جس پر موت وارد ہوگئی ‘اِس کی قیامت قائم ہوگئی۔ گویا تنہائی ہمارے باطن کا چہرہ ہے۔ باطن اگر خوشبودار ہے‘ تو تنہائی بھی خوشبودار ہوگی… نہیں ٗ تو نہیں! خوشبودار شخصیت ہی خوشبو تقسیم کرسکتی ہے، ماحول کو خوش گوار بنا سکتی ہے۔ معاشرے سے نفرت، بغض، حسد، کینہ اور غصے ایسی بدبو کو محبت کی خوشبو ہی دور کر سکتی ہیں۔ نفرت کا جواب اگر نفرت سے دیا جائے تو مزید نفرت اُگتی ہے۔ نفرت کا جھاڑ جھنکار محبت کا سہاگہ صاف کرتا ہے۔ منفی جذبوں سے اَٹا ہوا بدبوار ماحول اگر خوش گوار کرنا مطلوب ہو تو اِس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہاں محبت کی بھینی بھینی خوشبودار اگربتی لگا دی جائے۔ کثافت لطافت سے ختم ہوتی ہے۔ برائی کا جواب برائی نہیں ٗ نیکی ہے۔ برائی کو شفایاب کرنے کا نسخہ صرف نیکی کے پاس ہے۔ برائی بے بصیرت ہوتی ہے، اور اکثر بصارت میں بھی ناقص ہوتی ہے، دنیا کی چکاچوند اسے اندھا کر چکی ہوتی ہے۔ اندھا کسی اندھے کا سہارا نہیں بن سکتا۔ کوئی نور والا ‘دانا بینا ہی اندھے کی راہ نمائی کرتا ہے۔
جلوت میں ہم صفات سے متعارف ہوتے ہیں، خلوت ہمیں ذات سے آشنا کرتی ہے۔ ذات کی ذات سے سرگوشی تنہائی میں میسر آتی ہے۔ وہ ہر دو میں تیسرا ہے۔ یوں تو وہ ہر ایک کے قریب ہے، کوئی اُس سے دُور ہوتو ہو ٗ وہی کسی سے دُور نہیں… تنہائی میں وہ مزید قریب ہو جاتا ہے‘ بلکہ اقرب ہو جاتا ہے‘ اور نفس میں پلنے والے وسوسوں سے باخبر ہوتا ہے۔ ایک میرا صفاتی پیکر ہے ‘جس کے ذریعے میں عالم کثرت سے مخاطب ہوتا ہوں اور ایک میرا ذاتی پیکر ہے۔ تنہائی میں ذاتی پیکر اپنے صفاتی پیکر سے ہم کلام ہوتا ہے… نفس ِ لوّامہ کی صورت میں اِسے آئینہ دکھاتا ہے… اور یوں ذات کے رُوبرو کرتا ہے۔ تنہائی میں بھی صفاتی دنیا سے ہم کلام رہنا غفلت کی کہانی ہے۔ میری ذات میں دو پیکر نہاں ہیں … اور وہ ہر دو میں تیسرا ہے۔ اگر میں عالمِ شہود میں کسی معتبر ذات کو اپنی ذات کا گواہ بنا لوں‘ تو وہ تیسرے میں چوتھا بن جاتا ہے۔ درِ علم ؑ سے منسوب ایک معروف قول ہے’’' مومن وہ ہے‘ جس کی تنہائی مومن ہے‘‘۔
تنہائی بجائے خود اک محشرِ خیال ہے۔ تنہائی میں تنہا ہونے سے ڈرنا چاہیے، تنہا آدمی اپنے حق میں ظالم بھی ہو جاتا ہے۔ کوئی تنہائی مطلق تنہائی نہیں ہوتی‘ ہر تنہائی کا ایک گواہ ہوتا ہے۔ آج کا گواہ‘ اگر کل منصف کی صورت میں جلوہ گر نظر آئے ‘تو ایسے میں واقعی زبان گنگ ہو جائے گی، اور زبان کے علاوہ سب اعضا گواہی دینے لگیں گے۔ جب منصف خود عینی شاہد بھی ہو تو فیصلے کے دن فیصلہ ہونے میں قطعی کوئی دقت نہ ہوگی۔ فیصلے کا دن‘ تو فیصلے سنانے کا دن ہے، وگرنہ فیصلہ تنہائی ایسے محشرِ خیال میں ہوا پڑا ہے۔ حشر وہ دن ہے ‘جب باطن نشر ہو جائے گا۔
ہماری تنہائی محفوظ ہو سکتی ہے‘ اگر ہم اِس بات پر یقین قائم کر لیں کہ تنہائی میں ہم اکیلے اور تنہا نہیں، بلکہ ہمہ حال ہماری تنہائی کا گواہ موجود ہے۔ تنہائی میں محبوب محجوب ہوگا یا مکشوف؟ … یہ ہماری ترجیح پر موقوف ہے۔ اگر ترجیحات کے باب میں جسم اور جسمانیات سرفہرست ہو‘ تو اِنسان اپنے محبوب سے محجوب ہوگا، اگر ترجیح روح اور روحانی لطافت ہو تو محجوب مکشوف ہو سکتا ہے۔
اگر ہم اپنی تنہائی کی حفاظت میں مصروف ہو جائیں‘ تو ہماری محفل بھی خوشبودار ہو جائے۔ لطافت کثافت کا بوجھ اٹھا لیتی ہے۔ کثافت کسی کا بوجھ نہیں اٹھا پاتی، کیونکہ یہ زمین کی طرف مائل ہونے کے سبب خود بوجھل ہوتی ہے۔ جلوت اور خلوت کی تطبیق اخلاص ہے، اور تفریق منافقت!! منافقت محجوب ہوتی ہے، اور اِخلاص مکشوف!!
واصفؔ جہانِ فکر کی تنہائیاں نہ پوچھ
اہلِ قلم کے واسطے خلوت بھی انجمن