اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافے کی ذمہ دار پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے واٹس گروپ سمیت ، ای میلز میں چینی کی قیمتوں اور مارکیٹ میں کم دستیابی کے حوالے سے انکشافات ہوئے ہیں ۔ کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق سی سی پی نے شوگر سیکٹر میں کمپٹیشن مخالف سرگرمیوں پر انکوائری کمیٹی کی سفارش پر کمپٹیشن ایکٹ کی دفعہ 30 کے تحت شو کاز نوٹسز جاری کیے ۔
سی سی پی کی انکوائری سے یہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن شوگر انڈسٹری میں کارٹلائزیشن کے حوالے سے فرنٹ رنر کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ پی ایس ایم اے اور جے ڈی ڈبلیو گروپ کی شوگر ملوں کے دفاتر کی انسپیکشن کے دوران جو شواہد اکٹھے ہوئے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ یہ کمپٹیشن مخالف سرگرمیاں 2010 سے جاری ہیں۔ ضبط شدہ ریکارڈ سے پی ایس ایم اے اور اس شوگر مل گروپ کے سینئر آفیشل کے درمیان ہونے والی ای میلز کے تبادلے کا معلوم ہوا جو حساس تجارتی معلومات جیسے کہ ملز اور ضلع کے لیول پر سٹاک کی پوزیشن اور حتی کہ گنے کی کرشنگ کی مقدار، چینی کی پیداوار، ریکوری کا تناسب ، چینی کی پچھلی پیداوار ، چینی کی فروخت کی مقدار اور اس کے تناسب پر مشتمل تھا۔
کمیشن کے مطابق ایک واٹس ایپ گروپ کے جائزے سے معلوم ہوا کہ شوگر مل گروپ کا یہی سینئر آفیشل چینی کی قیمت اور سٹاک سے متعلق ڈیٹا کے سلسلے میں مسلسل رابطے میں تھا۔ پی ایس ایم اے سے قبضہ میں لیے گئے ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ اس شوگر مل گروپ کا یہی سینئر آفیشل دو ہزار بارہ سے جب ان کو پی ایس ایم اے کی جانب سے چینی سٹاک پوزیشن کے لئے فوکل پرسن تعینات کیا گیا تھا۔ سی سی پی کی انکوائری سے یہ بھی معلوام ہوا کہ ممبران شوگر ملوں نے پی ایس ایم اے کے پلیٹ فارم کو حساس تجارتی فیصلے کے لیے استعمال کرتے رہے ۔
شوگر کے ڈومیسٹک سٹاک اور سپلائی میں کمی جو کہ متعلقہ مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا موجب ٹھہرے۔ پی ایس ایم اے اور اس کے ممبر شوگر ملوں کو موقع دیا گیا کہ وہ کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنا موقف دیں ۔ پی ایس ایم اے اور 84 شوگر ملوں نے بادی النظر کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجتماعی طور پر چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اور اس طرح پاکستان میں فراہم کی جانے والی چینی کی مقدار طے کی ہے۔
اسی طرح انہوں نے برآمدات کے ذریعہ چینی کے اسٹاک کو کم کر کے کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور اجتماعی طور پر پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ برقرار رکھا ۔ اس کے علاوہ 2019-20 کے کرشنگ سیزن میں پنجاب میں پندرہ ملوں نے پی ایس ایم اے کی سرپرستی میں اجتماعی طور پر گنے کی کرشنگ میں تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں سپلائی میں کمی واقع ہوئی اور پنجاب میں 45 شوگر ملوں نے پی ایس ایم اے کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے حساس کاروباری معلومات کا بھی آپس میں تبادلہ کیا گیا ۔
پی ایس ایم اے اور شوگر ملوں نے مختلف مواقعوں پر یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن کے جاری کردہ ٹینڈروں میں شوگر کی مقدار کو بھی آپس میں تقسیم کیا۔
سی سی پی نے پنجاب میں 19 شوگرملوں کو دو ہزار انیس کے ٹینڈر کے حوالے سے کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزی میں ملوث پایا اور ملک بھر کی 30 شوگر ملوں کو اس سے قبل کے ٹینڈر کی وجہ سے شوکاز جاری کیا گیا ہے۔ یہ چارجز 2009 میں سی سی پی کی سابقہ شوگر انکوائری رپورٹ کے نتائج سے بھی جوڑے ہوئے ہیں جس میں پی ایس ایم اے قیمتوں کو براہ راست طے کرنے پر ملوث پائی گئی تھی۔ حالیہ معاملے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ایس ایم اے اور اس کی ممبر ملوں نے ڈومیسٹک مارکیٹ میں دستیاب چینی کی فراہمی کو کنٹرول کر کے قیمتوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔