پیرس : ماضی میں خبررسانی کا آسان اور ترین ذریعہ کبوتر کو سمجھا جاتاتھا۔ بادشاہ ایک دوسرے کو پیغامات حتیٰ کے جنگ کے دوران انتہائی خفیہ پیغامات بھی کبوتروں کے ذریعے ہی بھجواتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کبوتر انتہائی تیزی کے ساتھ بغیر رکے اپنی منزل مقصود پر ناصرف پہنچ جاتاتھا۔ بلکہ وہ واپسی پیغام بھی لے آتا تھا۔
ایسا ہی ایک پیغام فرانس کی ہائیکرجوڑی کو بھی ملا ہے ۔ فرانس کے شمالی مشرقی علاقے میں مقامی ہائیکرز کی جوڑی کو ہائیکنگ کی دوران 1910 میں بھیجا ہوا پیغام زمین کے اندر دھنسا ہوا ملا ۔
مقامی ہائیکر جیڈ ہلوئی نے کہا کہ وہ اپنی ساتھی خاتون کے ساتھ انگریشیم کے علاقے میں ہائیکنگ کررہے تھے کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا ایلومینیم سلنڈر نما کیسپول زمین میں پھنسا ہوا دیکھا ۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اس کو کھود کر نکال لیا ۔ اس ایلومینیم کے چھوٹے سے سلنڈر کے اندر ایک کاغذ کا ٹکڑاتھا۔ جس پر کوئی خاص پیغام لکھا تھا مگر وہ اسے جانتے نہیں تھے کہ کیا لکھا ہے ۔
وہ اس کاغذ کے ٹکرے اور بوتل کو مقامی میوزیم میں لے گئے جہاں جرمن لینگوائج کے ماہر سے اس تحریر کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ٹرانسلیٹر کا کہناتھاکہ کاغذ پرلکھا پیغام 16 جولائی 1910 کا تھا۔
اس کو ایک پرشین انفنٹری آفیسر نے اپنی ملٹری ڈرلز کے حوالے سے لکھا تھا۔ جو اس وقت انگریشیم کے علاقے سے ایلسیس کے علاقے میں جرمن فوج کو بھیجا گیا تھا۔
میوزیم کے مترجم کا کہناہے کہ یہ چھوٹا سا کیپسول ممکنہ طور پر ایک کبوتر کے ذریعے ہی گرا تھا۔ کیونکہ ان دنوں میں پیغام رسانی کے لیے سب سے اہم ترین ذریعہ صرف اور صرف کبوتر ہی ہوتا تھا۔ ایسے پیغامات کبوتر کے ذریعے بھجوائے جاتے تھے۔
مقامی تاریخ دان کا کہناہے کہ یہ واقعی میں ایک انتہائی اچھوتی چیز ہے ۔ اس پیغام کو چھوٹے کیپسول سمیت میوزیم میں آویزاں کردیا گیا ہے