عمران خان کو سابق وزیراعظم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، اِس کی وجہ یہ نہیں میرا اُن کے ساتھ چوبیس سالہ دیرینہ تعلق ہے اور یہ چوبیس برس خان صاحب کے ساتھ گزارنے کے بعد اُن ہی کی تربیت یا صحبت کے نتیجے میں مجھے اب اُن کے حوالے سے لکھنے یا بولنے میں اُن کے ساتھ ذاتی تعلق کالحاظ بھی نہیں رہتا، اِس کی وجہ یہ ہے اپنے اقتدار کے چاربرسوں میں جس طرح کی نااہلیوں ،نالائقیوں ، خصوصاً بداخلاقیوں کا اُنہوں نے مسلسل مظاہرہ کیا ہم یہ چاہتے تھے اب وہ کبھی اقتدار میں نہ آئیں، مگر اصلی حکمرانوں کی خواہش یا حکم پر اپوزیشنی سیاستدانوں نے مبینہ طورپر کچھ اندرونی و بیرونی اشاروں پر جو کھیل اُنہیں اقتدار سے الگ کرنے کے لیے کھیلا اُس کے نتیجے میں ایک تو مستقل قریب میں ملک میں شدید افراتفری کا خدشہ ہے، بلکہ سچ پوچھیں خانہ جنگی کا خدشہ ہے، اور دوسرے اُس سے بھی بڑا خدشہ یہ ہے ایک نااہل شخص کہیں دوبارہ اُسی طرح اقتدار میں واپس نہ آجائے جس طرح اب کچھ چوروڈاکودوبارہ بلکہ بارہ اقتدار میں واپس آچکے ہیں، …ایک سال خان صاحب کو مزید مِل جاتا، جوکہ اُن کا حق تھا، یقین کریں اگلے الیکشن میں اُن کی جماعت کا تقریباً صفایا ہو جاتا، اِس لیے اُنہیں سابق وزیراعظم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، بہتر تھا وہ اب بھی وزیراعظم ہوتے۔ چاربرسوں تک جو نقصان اُنہوں نے ملک کا کیا، مزید ایک برس کرلیتے ملک کو اُس سے کیا فرق پڑنا تھا؟، مگر دوہاتھیوں کی لڑائی میں وہ کچلے گئے، بظاہر تو یہی لگتا ہے کُبڑے کو لات راس آگئی ہے، مگر جو حالات آگے پیدا ہونے کا خدشہ ہے فی الحال پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کُبڑے کو لات راس آئی ہے یا نہیں ؟ البتہ جو لاتیں پڑی ہیں، اُس کا ہمیں افسوس رہے گا … دوہاتھیوں کی لڑائی میں کچھ لوگ نوازے اور شہبازے بھی گئے ،اُن کے لیے بھی ابھی بہت مشکلات ہیں۔ لہٰذا اُن سے گزارش ہے جتنا ہوسکتا ہے اپنی اوقات میں رہنے کی کوشش کریں، اور ایسی حرکتیں نہ کریں کہ اُن کی ماضی کی مشکلات میں مستقبل میںمزید اضافہ ہوجائے ،…خیر اگلے روز عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں جہانگیر ترین اور علیم خان کے بارے میں جو کچھ فرمایا فی الحال میں کچھ روشنی اُس پر ڈالنا چاہتا ہوں۔ میں بھی خان صاحب کے بہت قریب رہا ہوں مگر اُتنا نہیں رہا جتنے مراد سعید اور زلفی بخاری تھے۔ سو میں پی ٹی آئی کے اندرونی حالات وواقعات سے بخوبی آگاہ ہوں بلکہ بے شمار واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، خان صاحب کے اقتدار کے آخری دوبرسوں میں جورویہ اور کردار اُن کا میں نے دیکھا، اُن سے مجھے کیا گھِن آنی ہے، اپنے آپ سے آتی ہے کسی منافقانہ صلاحیتوں کے مالک ایک جھوٹے شخص کی اتنے برسوں تک میں حمایت کرتا رہا، اب جب اپنے گناہوں کی اللہ سے میں معافی مانگتا ہوں، سب سے پہلے اِس گناہ عظیم کی مانگتا ہوں خان صاحب کی اندھا دھند تقلید میں کرتا رہا۔ 2012ء میں نوائے وقت کے مالک مجید نظامی مرحوم نے مجھ پر یہ پابندی عائدکردی کہ آئندہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے کالموں میں آپ عمران خان کے حق میں نہیں لکھیں گے۔ میں نے یہ پابندی قبول کرنے سے انکار کردیا، میں نے نوائے وقت سے استعفیٰ دے دیا، اُس موقع پر مجید نظامی مرحوم نے مجھے بُلا کر جوکچھ عمران خان کے بارے میں مجھ سے کہا، اُس وقت تو مجھے سخت بُرا لگا۔ میں احتجاجاً اُن کے دفتر سے اُٹھ کر چلے بھی گیا، مگر خدا کی قسم آج وہ سب حرف بہ حرف درست ثابت ہورہا ہے۔ کاش مجید نظامی زندہ ہوتے میں اُس وقت بولے گئے اپنے سخت الفاظ پہ اُن سے معافی مانگتا… اب جو لوگ خان صاحب کی اندھی تقلید کررہے ہیں اُن بے چاروں کا اصل مسئلہ ہی یہی ہے وہ خان صاحب کو قریب اور اندر سے نہیں جانتے، دُور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں، سو میرے نزدیک خان صاحب بھی دُور کے ایک ایسے ڈھول ہیں جو بے شمارلوگوں خصوصاً اوورسیز پاکستانیوں کو ابھی تک بڑے سہانے لگ رہے ہیں، یہ الگ بات ہے مستقبل قریب میں جو انکشافات خان صاحب کے بارے میں ہونے والے ہیں ممکن ہے اُس کے بعد بے شمارلوگوں کو میری طرح خان صاحب سے نہیں خود سے گھِن آنے لگے کہ کیسے شخص کی اندھی تقلید وہ کرتے رہے ؟۔ آج کل امریکہ کے بارے میں وہ مسلسل بدزبانی کررہے ہیں، امریکی مراسلے کی ہوا کچھ خارج ہوچکی ہے، کچھ آگے چل کر مزید خارج ہوجائے گی، خان صاحب کا اصل مسئلہ یہ ہے وہ امریکہ کو صرف اِس لیے پاکستان کا دشمن سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر نے اُنہیں کال نہیں کی، بس اِسی روگ کو وہ دِل پر لگاکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن کی جھوٹی اور چھوٹی اناتڑپ اور مچل رہی ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن ہوتا کون ہے مجھے فون نہ کرنے والا ؟… دوسری طرف ایک خاص پس منظر میں یہ تاثر بھی قائم ہوتا جارہا ہے کہ جنونی انداز میں امریکہ کے خلاف بات وہ کہیں امریکہ کی مرضی سے تو نہیں کررہے؟۔میں تو ہرگز اِس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں مگر لوگوں کے منہ اور زبانیں بظاہر ہے اُسی طرح بند نہیں کئے جاسکتے جس طرح خان صاحب کا منہ یا زبان بند نہیں کئے جاسکتے …جہاں تک جہانگیر ترین اورعلیم خان کا تعلق ہے، میں اِس پہ زیادہ تفصیل سے بات نہیں کروں گا۔ جہانگیر ترین کے کچھ کیسز عدالت میں ہیں، اور علیم خان نے اگلے روز خان صاحب کی طرف سے خود پر لگنے والے الزام کی بھرپور انداز میں ایسی وضاحت کردی ہے مجھے یقین ہے کم ازکم کل رات عمران خان ایک پل کے لیے بھی چین سے نہیں سوئے ہوں گے۔ اِس خدشے سے کہ علیم خان نے اپنی اخلاقیات سے مجبور ہوکر اُن کے بارے میں جوانکشافات ابھی تک شواہد کے ساتھ نہیں کئے وہ کہیں اب کرنہ دیں۔ جتنا علیم خان کو میں جانتا ہوں، وہ کبھی اُس حدتک نہیں جائیں گے جس سے عمران خان اور اُن کے درمیان فرق مِٹ جائے۔ عمران خان ایک انتہائی بے دید، بدلحاظ، بے مروت اور طوطا چشم انسان ہیں، علیم خان ایک حیادار انسان ہیں، پرانے تعلق کا لحاظ رکھنے کی ہرممکن حدتک کوشش وہ کرتے ہیں،یہ کوشش عمران خان کے حوالے سے بھی وہ مسلسل کررہے ہیں، سو سابق وزیراعظم خان صاحب سے میری عاجزانہ گزارش ہے جتنی زیادتیاں علیم خان وجہانگیر ترین کے ساتھ اُنہوں نے اپنی محسن کش فطرت کے مطابق کرنی تھیں وہ کرچکے، اُن کے لیے بہتر اب یہی ہے اُن دونوں کے حوالے سے اپنی زبان پر وہ اب قابو پالیں۔ کچھ ’’پانڈے‘‘ علیم خان نے اپنی فطرت کے برعکس بیچ چوراہے پھوڑ دیئے خان صاحب کے لیے ایسے مسائل کھڑے ہو جائیں گے جو جِن بھوت وچڑیلیں وغیرہ بھی شاید نہ حل کرسکیں !!