کابل : افغانستان کے صوبہ زابل اورپروان میں 2 دھماکوں کے نتیجے میں 13 افرادجاں بحق ،42 افراد زخمی ہو گئے ۔
پولیس کے مطابق زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جن میں سے 3 کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے ۔ پولیس کی جانب سے علاقے میں سرچ آپریشن جاری کر دیا گیا ۔
دوسری جانب افغان دارلحکومت کابل میں اسکول میں ہونے والے بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 68 ،جبکہ 165 زخمی ہو گئے ۔ ہلاکتوں میں زیادہ تر تعداد لڑکیوں کی ہے ۔ جن میں سے کچھ طلبہ کی تدفین کر دی گئی ہے ۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سکول کے طلبہ کو دہشتگردی کا نشانہ بنا دیا گیا تھا۔ دہشتگردوں کی جانب سے اس حملے میں مارٹر بم اور کار کو بارودی مواد سے اڑایا گیا۔ واقعے میں کم از کم 55 افراد جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دہشتگردی واقعے کی اطلاع ملتے ہی افغان سیکیورٹی فورسز علاقے میں پہنچیں اور اسے گھیرے میں لے لیا جبکہ امدادی ٹیموں نے بھی موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کیں اور ایمبیولینسوں کے ذریعے زخمی طلبہ وطالبات سمیت دیگر شہریوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا۔
ہسپتالوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دہشتگرد واقعے میں زخمی متعدد طلبہ کی حالت تشویشناک ہے تاہم ڈاکٹرز ان کی جانیں بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ادھر افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کا مورد الزام طالبان کو ٹھہرایا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ دہشتگرد حملہ کابل میں قائم سید الشہدا نامی سکول کے باہر ہوا اور ہسپتالوں میں لائی جانے والے زخمی اور لاشیں بھی طلبہ وطالبات کی ہی ہیں۔
افغان ٹیلی وژن چینلز پر اس واقعے کے دلخراش مناظر دکھائے جا رہے ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ بم دھماکے کے بعد ریسکیو ٹیموں کی عدم موجودگی میں شہری اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو ہسپتال لے جا رہے ہیں جبکہ سڑکوں پر خون اور کتابیں بکھری پڑی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دہشتگرد حملہ سکول میں چھٹی کے وقت ہوا۔ اس وقت سکول گیٹ پر طلبہ وطالبات کی بڑی تعداد موجود تھی جب اچانک زور دار دھماکہ ہو گیا۔ اس کے بعد ہر طرف خون اور زخمیوں کی چیخ وپکار تھی۔
خیال رہے کہ طالبان سمیت ابھی تک کسی گروپ نے اس دہشتگرد واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کو مورد الزام قرار دیدیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکا ور نیٹو ممالک نے افغانستان سے واپسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ اب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔