اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے کالعدم تنظیم جماعت الاحرار کا نام دہشتگردوں کی فہرست میں ڈالنے کی پاکستان کی تجویز مسترد کر کے دہشت گردی کے خلاف دہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ کالعدم تنظیم جماعت الاحرار پر پابندی عائد کی گئی لیکن تنظیم کے سربراہ پر بھی عالمی پابندی لگائی جانی چاہیے۔
ترجمان نے کہا کہ کمیٹی کی جانب سے خالد خراسانی کو دہشت گرد قرار دینے کی پاکستان کی تجویز مسترد ہونے پر مایوسی ہوئی، فی الحال ہمیں کمیٹی نے اپنے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ عمر خالد خراسانی کے ہاتھ کئی پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کی پابندی لگانے والی کمیٹی نے دہشت گردی کے خلاف ہماری قربانیوں کو پیش نظر نہیں رکھا اور دہرے معیار کا مظاہرہ کیا۔
ترجمان نے مزید کہا عمر خالد خراسانی کا معاملہ دوبارہ اٹھایا جائے گا تاہم اس حوالے سے فی الحال تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے میوزیم سے قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر ہٹانا بھارت میں بڑھتی عدم برداشت کی عکاس ہے، ہمیں پتہ چلا ہے کہ سرسید احمد خان کی تصویر بھی ہٹا کر ان کی جگہ نریندر مودی کی تصویر لگادی گئی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ مہاتما گاندھی کی تصویر پاکستان کے میوزیم میں آویزاں ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت او آئی سی کی رکنیت حاصل نہیں کرسکتا، او آئی سی کی جانب سے کئی قراردادیں بھارت کے خلاف منظور کی جاچکی ہیں تو ایسے ملک کو اس تنظیم میں کس طرح شامل کیا جاسکتا ہے۔
ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے، بنگلادیش میں 6 مئی کو او آئی سے وزرائے خارجہ کانفرنس میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور جدہ میں حالیہ اجلاس کے دوران بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو دبایا نہیں جاسکتا، بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس بند ہیں اور اس کے باوجود بھارت جھوٹے پروپیگنڈے سے دنیا کو گمراہ نہیں کرسکتا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق مہاجرین کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہوتی اور پاکستان میں جو افغان مہاجرین ہیں وہ بھی اسی قانون کے تابع ہیں۔