اسلام آباد: العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں مریم صفدر، حسین اور حسن نواز کے سپریم کورٹ میں جمع بیانات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب ریفرنسز کی سماعت کر رہے ہیں۔ ملزمان کے بیانات عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے پر خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا مریم نواز کا نام اس ریفرنس میں شامل نہیں، حسن اور حسین نواز بھی اس عدالت کے سامنے نہیں اس لئے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ نجی بنک کی ایل سی اور 5 نومبر 2017 کا قطری شہزادے کا خط بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔
گواہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے طارق شفیع اور مسٹر آہلی کے درمیان 1978 کا معاہدہ بھی عدالت میں پیش کیا۔ واجد ضیاء نے اپنے بیان میں کہا شیئرز کی فروخت کا معاہدہ عبداللہ قائد آہلی اور طارق شفیع کے مابین ہوا۔ گلف سٹیل ملز کے 75 فیصد حصص فروخت کا معاہدہ متفرق درخواست کیساتھ سپریم کورٹ میں جمع ہوا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے وکلاء کی جعلی ڈگریوں پر از خود نوٹس لے لیا
سپریم کورٹ سے معاہدے کی تصدیق شدہ کاپیاں حاصل کیں۔ واضد ضیاء نے اپنے بیان میں بتایا 20 اپریل کو ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے طور پر کام کر رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا اور جےآئی ٹی نے تفتیش کرنی تھی اور پتہ لگانا تھا کہ نواز شریف ان اثاثوں کے مالک ہیں یا بے نامی دار ہے۔
دوران سماعت خواجہ حارث اور پراسیکیوٹر نیب کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا میں باہر چلا جاتا ہوں آپ بیان کرا لیں۔ جس معزز جج نے کہا ہر فقرے پر اعتراض نہ اٹھائیں اس طرح 400 اعتراضات ہو جائیں گے ہم بھی جواب دیں گے بیان بہت لمبا ہو جائے گا۔ یہ اپنا اعتراض لکھ لیں بعد میں اس پر بحث کر لیں جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا اعتراض اٹھانا میرا قانونی حق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر پابندی
سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز عدالت میں پیش ہوئے اور حاضری لگانے کے بعد احتساب عدالت نے دونوں کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں