لاہور : وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سیاسی مخالفین سی پیک جیسے ترقیاتی منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوششیں نہ کریں وفاقی اکائیوں کے تمام نمائندوں نے سی پیک کے منصوبوں پر اتفاق کیا تو جس میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک بھی شامل تھے چین جا کر منصوبوں سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنا افسوسناک ہے سیاسی مخالفین اس اہم ترقیاتی منصوبے پر سیاست سے گریز کریں. سی پیک منصوبوں پر خیبر پختونخوا اور سندھ سمیت تمام صوبوں نے اتفاق کیا تھا.
لاہور میں سی پیک کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے اسکی اصل روح کے مطابق نہ دیکھا جائے آج کی دنیا 50یا 20سال پہلے والی دنیا نہیں ہے آج ہم فورتھ انڈسٹریل ریولیوشن کے سنگم پر کھڑے ہیں ہماری وہ نسل ہے جس نے تختی سے لیکر فورجی تک کا سفر طے کیا ہے اور یہ تغیر ہر اانے والے دن کے ساتھ تیز ہوتا جا رہا ہے 21ویں صدی اقتصادیات کی صدی ہے 20ویں صدی کو سیاسی نظریات کی صدی کہا جاتا ہے جس میں نو آبادیاتی نظام سامراجی نظام اور کلونیل ایمپریل سٹرکچر تھے ان کے خلاف مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں سیاسی نعروں اور سیاسی نظریات نے ان تحریکوں کو قوت بخشی یہی وجہ ہے کہ 20ویں صدی کا پورا سفر کیپیٹل ازم کمیونزم اور دنیا کو تقسیم کرنے کے پلیٹ فارم بنے وہ سیاسی بلاک تھے جن کے اندر دنیا نظریاتی طور پر تقسیم ہوئی 21ویں صدر سیاسی نظریات کی صدی نہیں یہ اقتصادی نظریات کی صدی ہے آج دنیا کی تقسیم اس بنیاد پر نہیں ہے کہ کیپٹیلسٹ اکانومی کونسی ہے اور سوشلسٹ اکانومی کونسی ہے آج تقسیم جی ایٹ جی 20کی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی معیشتیںکون کونسی ہیں آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جس میں قوموں کی بقاء ، ترقی و سلامتی کا دارومدار ان کی معیشت کی طاقت پر ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایٹمی اسلحہ اور افواج کی تعداد کسی ملک کو تاریخ میں قائم رکھ سکیں تو ہماری نظروں کے سامنے سوویت یونین جیسی سپر پاور ختم نہ ہوتی سوویت یونین کے پاس ایٹمی اسلحہ کی کمی نہ تھی ان کی ریڈ آرمی دنیا کی سب سے بڑی آرمی تھی ان کے پاس جہازوں کا بھی بہت بڑا بیڑا تھا لیکن ان کی معیشت پنکچر ہو گئی تو ایک سپر پاور بھی دنیا کے سامنے صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہمیں نظریات کے جھگڑوں میں الجھنے کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کس سوچ اور فلسلفے کے ساتھ ہم اپنے لوگوں کو خوشحالی دے سکتے ہیں اور اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کر سکتے ہیں. اس فلسفے پر چینیوں نے چین میں اصلاحات کا آغاز کیا اس انقلاب کی جھلکیں آپ اس حقیقت سے دیکھ سکتے ہیں 1980میں چین کی فی کس آمدنی تقریباً200ڈالر تھی اب پاکستان کی فی کس آمدنی 300ڈالر تھی اسطرح پاکستان کی فی کس آمدنی چین سے 100ڈالر سے زیادہ تھی .
انہوں نے کہا کہ ہم جیو سٹریٹجک جنگوں میں الجھتے رہے کچھ ڈالر لیکر دوسروں کی جنگیں لڑتے رہے اور اقتصادی وژن کو نہ اپنایا ہمیں جیو اکنامکس کے راستے کو چھوڑ کر جیو سٹریٹجک جنگوں میں الجھتے رہے کبھی سیٹو سینٹو پیکٹ بنے تو اس میں سب سے پہلے خدائی خدمتگار بن کر شامل ہو گئے اور چند ڈالروں کے عوض دوسروں کی جنگ لڑی پھر سوویت یونین کی جنگ ہوئی تو اس میں پیش پیش تھے پھر 9/11کے بعد دہشتگردی کی جنگ ہوئی تو اس میں چھلانگیں مارتے شامل ہو گئے پہلی دفعہ اقتصادی رخ میں ٹھوس تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی پاکستان کو اللہ تعالی نے ایک ایسا خطہ دیا ہے کہ پاکستان ایشیاء میں تین انجن آف گروتھ سائوتھ ایشیاء چائنہ اور وسطی ایشیاء کے درمیان ایک پل اور مرکز کا کردار ادا کر سکتا ہے پاکستان اس خطے میں تجارت ا ور اقتصادی سرگرمیوں کا حب بن سکتا ہے جس میں تین ارب کی آبادی بستی ہے۔