اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اہم سوالات اٹھائے گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو پھر کیا ہوگا؟" اس پر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتیں صرف فوجی اہلکاروں کے لیے قائم ہو سکتی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ "اگر ایسا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام ہیں۔"
سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان کی موجودگی میں یہ سماعت جاری ہے، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر بحث کی جا رہی ہے۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہو سکتیں اور سویلینز کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے کسی بھی حصے کے ذریعے بنیادی حقوق واپس نہیں لیے جا سکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "تنازعہ یہ نہیں ہے کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت دی جائے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر سویلینز آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کریں تو کیا اس کا دائرہ سویلینز تک بڑھایا جا سکتا ہے؟"
اس دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ "اگر فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175(3) کے تحت آتی ہیں، تو انہیں فوج کے ممبران کے لیے بھی قائم نہیں رکھا جا سکتا۔"
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کیس کے جواب الجواب کے لیے ایک ہفتہ کی مدت کی درخواست کی، جسے عدالت نے منظور کر لیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔