فیڈرل ٹیکس محتسب

فیڈرل ٹیکس محتسب

گزشتہ کالم پر مغلپورہ ڈرائی پورٹ پر لا برانچ میں تعینات سلیم اقبال منج نے خصوصی طور پر فون کیا اور کہا کہ آپ نے محکمہ کسٹم، اعلیٰ افسران کے حوالے سے عدلیہ کی کارکردگی خصوصی خصوصاً ماتحت عدلیہ کی بات کی، جس کو تمام شعبہ ہائے زندگی کے افسران میں سراہا گیا۔ وطن عزیز کے ٹیکس محتسب کے دفاتر میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ان کے بارے میں بھی ضرور لکھیں۔ دراصل 28 فروری کو مجھے اور بڑے بھائی گلزار احمد بٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کو وفاقی ٹیکس محتسب کی طرف سے آگاہی مہم کے سلسلہ میں ایوان صدر مدعو کیا گیا خاندانی مصروفیات کی وجہ سے شرکت سے محروم رہے لیکن اس سے پہلے گورنر ہاؤس لاہور میں صدر مملکت عارف علوی مہمان خصوصی تھے، گورنر پنجاب بھی تھے۔ اس میں ہم موجود تھے۔ معروف دانشور اور ممتاز صحافی جناب افتخار احمد صاحب بھی تھے یہ دوسری بار تھی کہ گورنر ہاؤس میں ٹیکس محتسب کے اعزاز میں تقریب منعقد ہوئی تھی۔فیڈرل ٹیکس محتسب کے قیام کے بعد اس کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ ایف بی آر میں لاجواب سروس کرنے والے ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو فیڈرل ٹیکس محتسب مقرر کیا گیا۔ انہوں نے جنگی بنیادوں پر لوگوں کو ریلیف دیا موبائل فون پر آنے والی درخواست کا دو گھنٹے میں فیصلہ کر دیا۔ ان گنت واقعات اور صرف چند ماہ میں! دراصل ڈاکٹر صاحب وطن عزیز کا اثاثہ ہے سرگودھا کے معروف ماہر تعلیم ریٹائرڈ پرنسپل جناب محمد بشیر صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔عملیت، خوش گفتاری، خوش اخلاقی، پاک بازی، پاکیزگی،زہد و تقویٰ، انسان دوستی، غریب پروری، دوست نوازی، شرافت، دیانت، امانت، خدمت خلق، اسلامیت، پاکستانیت، ورثہ میں ملی۔ یہی ورثہ آگے اولاد اور بیٹوں میں منتقل کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی کسٹم میں سروس لاجواب اور ضرب المثل ہے جبکہ انسانی خدمت کے اعتبار سے پوری دنیا میں یہ پہلا واقع ہے کہ کسی ادارے سے وابستہ آفیسر کو خدمت خلق کی بدولت ملت اپنے ملک ملک کے سب سے بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔ ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز جیسے اعزازات ڈاکٹر صاحب کو ملنا ان اعزازات کی عزت و توقیر میں اضافہ ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنی این جی او کے ذریعے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا فیڈرل ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم ٹیکس نیٹ میں اضافے کے بارے میں گزشتہ 70 برس سے کوششیں کر رہے ہیں مگر قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ کاروباری اور صنعتی برادری ٹیکس نیٹ پر آنے سے پہلے مطالبات پیش کرنے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں آنے کے بعد تجاویز پیش کرے، کیوں کہ ملک کو مالی مسائل سے نکالنے کا یہی موثر ترین ذریعہ ہے کہ تمام لوگ مل کر قومی آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ایف بی آر میں پائی جانے والی بد انتظامی اور تساہل کے خلاف نہ صرف فیصلے دیئے بلکہ اپنے فیصلوں پر پہرہ بھی دیا اور ٹیکس دہندگان کے ایف بی آر میں پھنسے ہوئے 27 ارب روپے کے ریفنڈ ادا کرائے۔ جس سے ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر میں ہم آہنگی کی فضا بہتر ہوئی۔ فیڈرل ٹیکس محتسب ٹیکس دہندگان کی مشکلات کے حل کے لیے قائم کیا گیا ہے اور یہ ٹیکس دہندگان کے وکیل کے طور پر کام کر رہا ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب آرڈیننس مجریہ 2000ء کے سیکشن 33 کے تحت باہمی گفت و شنید کے ذریعے بھی تنازعات کو چند گھنٹوں میں حل کرایا جا رہا ہے۔ ملک میں ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے ہم ٹیکس نظام سے دوستی کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ ٹیکس دہندگان کو باور کرایا جا رہا ہے کہ کسی بھی مشکل صورت میں ایک ادارہ موجود ہے جس سے بلا معاوضہ رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد آگاہی پروگرام کے تحت ملک میں مزید چار ریجنل سیکرٹریٹ کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سرحدی چیک پوسٹ پر بھی ایک ایک سہولت ڈیسک قائم کیا ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاح احوال کی نیت سے پہلی بار پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا آغاز کیا گیا ہے۔ تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں میں سے ہی اعزازی مشیران کی تقرری کی جا رہی ہے۔ اس اقدام سے ٹیکس دہندگان میں ٹیکس نطام کے حوالے سے پائے جانے والے خوف میں کمی آئے گی جو ٹیکس نیٹ میں اضافے کا باعث بنے گا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وفاقی ٹیکس محتسب سے توقعات وابستہ کی ہیں کہ وہ آگاہی مہم کے ذریعے ٹیکس دہندگان کے زیادہ سے زیادہ مسائل کو کم سے کم وقت میں حل کرائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں نظام احتساب قانونی موشگافیوں کا شکار ہے۔ قانون بالکل سادہ ہے یعنی جو بھی پبلک کی دولت کا امین ہے، وہ عوام کی دولت کے استعمال کا جواب دے۔ لوگ احتساب کے سوال کا جواب دینے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں اور قانون میں جھول کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب بھی کوئی نیا ٹیکس لگتا ہے تو سرمایہ کار برادریاں میرے پاس آتی ہیں، وہ نئے ٹیکسوں سے بچنا 
چاہتی ہیں لیکن ہمارا مسئلہ ہے کہ کیا ملک کے اخراجات کو چند لوگوں نے برداشت کرنا ہے؟ زیادہ سے زیادہ افراد کے ٹیکس نیٹ میں آنے سے فی کس ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو گا۔ نئے عائد کیے جانے والے ٹیکس کو 6 ماہ کے لیے موخر کرنے کا شور ہوتا ہے۔ لوگ ریکارڈ پر نہیں آنا چاہتے، جواب ایک ہی ہوتا ہے کہ ٹیکس نظام سے منسلک لوگ ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ جب انہیں یہ معلوم ہو گا کہ ان کا پیسہ جائز طور پر خرچ ہو رہا ہے تو وہ ٹیکس نیٹ میں آئیں گے۔ دنیا بھر میں ٹیکس چوری اور ٹیکس قوانین میں خامیاں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں بھی انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ ادارے کسی کو تنگ نہیں کریں گے لیکن جو جتنا کمائے گا وہ اتنا ٹیکس دے گا۔ ڈاکٹر آصف جاہ آخرت بھی کما رہے ہیں۔ اپنے رب کریم کے حضور جوابدہی سب سے بڑی جوابدہی ہے۔ آپ اس ادارے کو مزید مقبول بنائیں، الیکٹرانک نظام کو استعمال کریں، ہر ٹیکس دہندہ کے علم میں ہو کہ اگر اس کے ساتھ کوئی زیادتی ہو گی تو ازالے کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب کا فورم موجود ہے۔ 
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے فیڈرل ٹیکس محتسب کا چارج سنبھالنے علاقائی دفاتر کی تعداد 7 سے بڑھا کر 11کر دی گئی ہے۔ تمام ہوائی اڈوں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سرحد پر بھی سہولت ڈیسک کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ معمول کے معاملات میں ایف بی آر کو حکم دیا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواستیں دائر کرنے سے گریز کریں۔ اس سے عوام کا پیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے۔ چینی بحران کے مستقل حل کے لیے تقسیم کار اور ہول سیلرز کی ایف بی آر میں رجسٹریشن کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اس سے چینی کے سٹاک اور دستیابی کے متعلق معلومات میسر رہیں گی اور مصنوعی قلت پیدا نہ کی جا سکے گی۔ ڈاکٹر صاحب عجزو انکساری، سادگی، خدمت خلق کا استعارہ بن چکے ہیں۔ نیکی کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو کروڑوں لوگوں کی دعائیں میسر ہیں۔ وہ فیڈرل ٹیکس محتسب کو ایک ایسا ادارہ بنانے جا رہے ہیں جو وطن عزیز میں خدمت اور فرائض منصبی کی ادائیگی کی نئی تاریخ رقم جب کرے گا۔ اللہ کریم ڈاکٹر صاحب کو سلامتی اور عافیت میں رکھے۔

مصنف کے بارے میں