بلوچستان پاکستان کے ان صوبوں میں سے ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ نائن الیون کے بعد آنے والی دہشت گردی کی لہر نے بلوچستان کے سیاسی، سماجی، اور معاشی افق پر گہرے سائے چھوڑے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بلوچ سماج کی بنیادی بْنت شدید متاثر ہوئی۔ اس سے بلوچستان میں کاروبار تباہ ہوئے، سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا، اور سماجی سطح پر محرومیوں نے جنم لیا۔ ان مسائل کا حل صوبے کی تمام سیاسی اور سماجی اکائیوں کو اعتماد دلانا، کاروباری طبقے کو فعال کرنا، صوبے میں انفراسٹرکچر کی بحالی، اور تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ترقی دینا ہے۔
دہشت گردی کے عفریت نے مملکتِ خداداد کی راہ افغان جہاد کے دوراں دیکھی۔ اس دوران نا صرف اسلحے نے پاکستانی سماج میں راہ بنائے بلکہ انتہا پسندانہ اور علیحد گی پسندانہ نظریات نے بھی اس زمانے میں جڑیں مضبوط کیں۔ بلوچ علیحدگی پسند تحریک نے بھی اسی زمانے میں دوبارہ سر اٹھایا۔
خطۂ بولان، بلوچستان، پاکستان میں سب سے زیادہ قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان زندگی کی دوڑ میں پیچھے کیوں رہ گیا؟ پیہم دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا بلوچ معاشرہ، بلوچستان کا محل وقوع اور اس کی سماجی بْنت ان وسائل سے مستفید ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔بلوچستان کے پڑوسی ممالک (افغانستان اور ایران) اک طویل عرصہ سے بلوچ علیحدگی پسند راہنماؤں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ اس پر مستزاد، ان ممالک کے ساتھ بلوچستان کی سرحد نا صرف غیر محفوظ بلکہ دہشت گردوں کی نقل و حمل کے لیے بھی آسان ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی وجوہات کا اگر جائزہ لیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ جن میں شرح خواندگی میں خوفناک حد تک کمی، بے روزگاری، غربت،خراب طرز حکومت، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، مہنگا انصاف، اور سماجی تحفظ شامل ہیں۔ یہ تمام وجوہات ایک قبائلی معاشرے میںموجود سیاسی عدم استحکام کو جلا بخشتی ہیں جس کے نتیجے میں دہشت گردی کی نرسریاں پنپتی ہیں۔
دہشت گردی نے بلوچستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ معاشی میدان میں دہشت گردی کا عفریت بلوچستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگاء اور بے روزگاری کا جن کسی طور قابو میں نہیں آرہا اور مجموعی معاشی صورتحال دگردوں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں صوبے کی مجموعی معاشی ترقی کی ذمہ دار ہیں جبکہ دہشت گردی کی وجہ سے بلوچستان کی صوبائی حکومت اس میدان میں خاطر خواہ اقدام لینے سے قاصر نظر آتی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے ایک طویل عرصے سے استعمال ہورہی ہے۔ گزشتہ برس اگست کے مہینے میں امریکی انخلا کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ بلوچ سرزمین کوافغانستان سے لاحق خطرات اب کم ہوں گے۔ حالیہ واقعات مگر اس تناظر کی نفی کرتے ہیں۔ افغانستان کے صوبہ خوست، کنڑ، اور ننگرہار میں ان دہشت گردوں کی پناہ گاہیں قائم ہیں۔ پاک افواج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق امسال جنوری تا مارچ ستانوے (۷۹) پاکستانی فوجی جوان سرحد پار دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
جہاں بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد ریاست اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہیں، وہیں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد سابقہ فاٹا اور پختون خواہ میں اپنی کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان کے تناظر میں ایک نئی رجحان نے جنم لیا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند دہشت گردوں نے پہلی بار ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حربوں کا استعمال شروع کیا ہے جن میں خود کش حملوں اور چینی باشندوں پر حملے شامل ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں نے سی پیک پر کام کرنے والے چینی کارکنان پر گزشتہ برس گوادر کے قریب خودکش حملہ اور کوئٹہ میں چینی سفیر کے ہوٹل پر کار بم حملہ شامل ہیں۔
چینی کارکنان اس سے پہلے بھی بلوچ علیحدگی پسند حملہ آوروں کا نشانہ رہے ہیں۔ مثلا اگست دو ہزار اٹھارہ میں دالبدین میں چینی کارکنان کی بس پر خودکش حملہ کیا گیا کس میں تین چینی باشندے زخمی ہوئے۔ اسی سال نومبر میں انہی دہشت گرد گروہوں نے کراچی میں چینی قونسلیٹ پر حملہ کیا۔ دوہزار انیس میں چینی باشندوں کی قیام گاہ پی سی ہوٹل گوادر میں حملہ کیا۔
یہاںیہ سوال جنم لیتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد جو بزعم خود بلوچ قوم کے ہمدرد ہیں، پاکستان کے ریاستی اداروں اور چینی کارکنان پر ایسے وقت میں کیوں حملہ آور ہیں جب تاریخ میں پہلی بار بلوچستان کی اجتماعی ترقی کی امید جگی ہے۔ بادی النظر میں اس کی دو وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ اول تو یہ کہ اگر سی پیک میں شامل منصوبے مکمل ہو گئی تو ان کا دہشت گردی کا ایجنڈا ناکام ہو جائے گا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ غربت، بے روزگاری، اور معاشی تنگی کا دہشت گردی سے گہرا تعلق ہے۔ اگر سی پیک کے منصوبے کامیاب ہو گئی اور بلوچستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کا رجحان بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہاں بے روزگاری اور غربت کم ہو گی اور معاشی نمو جنم لے گی۔ ایسے ماحول میں ان ملک دشمن اور بلوچ دشمن قوتوں کو اپنا مکروہ ایجنڈا ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسی لیے ان کی حتی الامکان کوشش ہے کہ چینی سرمایہ کاری اور سی پیک منصوبے کسی صورت کامیاب نہ ہوں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی دوسری وجہ دہشت گردوں کا اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کی کوشش بھی ہے۔ اگر یہ پاکستان میں چینی مفادات اور چینی باشندوں پر حملہ آور ہوں گے تو امریکی اور بھارتی آشیرباد ملنا سہل اور ممکن ہوں گا۔ بد قسمتی سے یہاں بھی بلوچستان کا شاندار محل وقوع اس کی کمزوری بنا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک افغان بارڈر اور پاک ایران بارڈر مکمل سیل کر دیا جائے۔ بارڈر سیکورٹی فورسز کی گشت بڑھائی جائے۔ دہشت گردوں کی ہر قسم کی کراس بارڈر نقل و حمل پر قدغن لگائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر (بالخصوص بلوچستان میں) آپریشن ضربِ عضب کی طرز پر بلوچ علیحدگی پسند دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ جیسے سابقہ فاٹا سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا اسی طرح ان دہشت گردوں کو بلوچستان سے مار بھگایا جائے۔ بلوچستان میں موجود چینی کارکنان کی سیکورٹی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند دہشت گردوں کا بیانیہ ناکام بنانے اور دہشت گردی کی بنیادی وجوہات (بے روزگاری، خراب معیشت، اور سماجی عدم تحفظ) ختم کرنے کے لیے سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار بڑھانا ہو گی۔ بلوچستان کو امن و سکون اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے یہی نسخہ کیمیا ہے۔