اب تک توبی جے پی نے کشمیری مسلمانوں پہ ظلم کی انتہا کی تاریخ رقم کر رکھی ہے اور اس پہ مودی سرکار نے ہمیشہ سے ہونٹوں پہ چُپ کے تالے نصب کر رکھے ہیں یہ تو سب جانتے ہیں۔تاریخ میں جب بھی مسلمانوں پہ ظلم و ستم کی داستان رقم کی جائے گی تو اُس میں مودی کا نام بھی سر فہرست ہوگا،مگر اب تو بی جے پی نے تمام حدیں ہی توڑ ڈالیں ۔حالیہ بھارتی حکمران جماعت پی جے پی کے انتہا پسندی ونگ کی اہم رکن نو پور شرما کی جانب سے توہین رسالت کی ناپاک جسارت کا ارتکاب کیا گیا جس سے تمام اہل مسلم کے جذبات مجروح ہوئے اس پر ایک بار پھر سے مودی نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔
آخر کیوں؟کیوں مسلمانوں کو بار بار اذیت دی جاتی ہے؟میں یہاں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ پاکستان میں بھی بہت سے مذاہب ہیں اور وہ ہمارے ملک میں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات پورے آزادانہ طریقے سے گزارتے ہیں۔میرا پی جے پی،اور تمام ہندو کمیونٹی سے سوال ہے؟ کہ آئے روز یہ ہماری مسجدوں کی بے حرمتی کرتے ہیں اور ہمارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرکے اذیت پہنچاتے ہیں اور ہمارے ردعمل پہ، یہ لوگ ہمیں دہشت گرد اور دیوانہ قرار دیتے ہیں۔میرا ان سے سوال ہے اور سوال بھی جائز ہے کیا اگر مسلمان آپ کے کسی بُت کو سر عام توڑے تب بھی آپ یوں ہی چُپ رہیں گے؟تب تو آپ سب لوگ زمین آسمان نہ صرف ایک کریں گے بلکہ عالمی سطح تک آواز اُٹھائیں گے۔
میں یہاں توہین مذہب کے بارے میں بات کرنا چاہوں گی کہ اس کے متعلق خصوصاً غیر مسلموں کی سوچ کیا ہے۔توہین مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے 1860میں بنائے گئے اور پھر 1927میں ان میں اضافہ کیا گیاتھا۔1980اور 1986کے درمیان جنرل ضیاالحق کی حکومت کے دور میں متعدد شقیں ڈالی گئیں کیونکہ جنرل ضیا ء ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے اور احمدیہ برادری (جسے 1973میں غیر مسلم قرار دیا جا چُکا ہے)کو ملک کی مسلمان اکثریت سے الگ کرنا چاہتے تھے اور یہ وقت کے تقاضے کے مطابق درست بھی
تھا۔اب برطانوی راج میں جو قوانین بنائے گئے تھے ان میں کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا،کسی قبرستان میں بغیر اجازت کے داخل ہونا،کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا یا سوچ سمجھ کر کسی کی عبادت گاہ یا عبادت کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم قرار پائے تھے۔ان قوانین میں زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔
اب جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو قوانین میں ترامیم کی گئی جن میں اکثریت لوگوں،علماء کرام کی یہی رائے تھی کہ وہ براہ راست قرآن مجید سے لئے گئے تھے انسانوں کے بنائے ہوئے نہ تھے۔اب میں کیا سب یہی کہیں گے کہ قوانین درحقیقت امن و امان کو قائم کرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں اور ہمارا قرآن انسانیت اور امن و امان کا ہی درس دیتا ہے۔پاکستان جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس میں قوانین اور آئین کو قرآن و سنت کی رو سے ہی بنایا جانا چاہیے تھا ۔جب توہین مذہب کے قوانین میں ترامیم کر لی گئی تو بہت سے ناقدین ،اور غیر مسلموں کا یہ کہنا تھا کہ یہ قوانین اس لیے بنائے گئے ہیں کہ ان قوانین کو اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے،جبکہ یہ سوچ صریحا غلط ہے۔
میں ان تمام چیزوں اور قوانین کے بعد بھی ایک بات کہنا چاہوں گی کہ ان تمام قوانین کے باوجود بھی پاکستان میں تمام غیر مسلموں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور وہ لوگ پُر امن طریقے سے آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔
مگر بار بار توہین رسالت کرکے مسلمانوں کو پہلے اشتعال دلایا جاتا ہے او ر پھر مسلمانوں کے ردعمل کو برا جانا جاتا ہے ،اور ہمارے قر آن پاک کو غیر مسلم اکثر نعوذبااللہ کسی دیوانے کا خواب گردانتے ہیںاب میں اپنے کالم میں قارئین کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ قرآن اور جدید سائنس دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے کیونکہ قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں اور بہت سے سائنسدانوں نے قرآن مجید کی رو سے بہت سے تجربات کیے اور بہت سے سائنسدان تو مسلمان بھی ہوئے۔
اب ہمارے آقا دو جہاںؐ جن کی عزت و ناموس کے لیے ہماری آل اولاد ،اور ہماری جان بھی قربان اور بار بار نبیؐ کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کو اذیت پہنچائی جاتی ہے ۔توہین رسالت کے بارے میں ہمارے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے(سورہ الاحزاب،آیت نمبر 57)ترجمہ،بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو ایذا دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لیے دردناک عذاب ہے۔
یہ ہمارے لیے قرآنی احکام ہے اہل مسلم اس کو سمجھتے ہیں اور سب پہ لاگو ہوتا ہے کہ وہ آقا دو جہاں حضرت محمدؐ کی عزت و ناموس کے لیے آواز بلند کریں۔
اس بات کی اہمیت بھلے غیر مسلم نہیں سمجھتے مگر مسلمانوں پہ فرض ہے کہ وہ حق کی آواز بلند کریں۔انڈیا میں موجود مسلمانوں نے اس واقعے کے خلاف اتر پردیش کے ضلع کانپور میں شدید احتجاج کیا اور ہڑتال بھی کی مگر اس بات پہ مکمل ڈھٹائی کا ثبوت دیا گیا نو پور شرما کا کہنا ہے کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کے پیش کیا گیا یہ تو ایک سیاسی بیان ہوتا ہے جو کہ بعد میں اپنی کوتاہی کو لفظوں کی پردہ پوشی سے چھپایا جاتا ہے۔ مودی کا ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کر لینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی ترجمان کی اس غلطی پہ بالکل پشیمان نہیں ہیں ۔
مگر مسلمانوں کے اس احتجاج سے یہ بات ضرور ہوئی ہے کہ نو پور شرما کو پارٹی رُکنیت سے ہٹایا گیا اور انہیں ترجمان کے عہدے سے بھی معطل کر دیا گیااور نوپور شرما کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا مگر ابھی تک بھارتی پولیس نے نو پور شرما کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔
اب بھارتی پولیس کے ابھی تک کارروائی نہ کرنے کے پیچھے یہ بات صاف صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ صرف اور صرف وقتی مقدمہ بنا کر انڈیا میں موجود مسلمانوں کے احتجاج کو روکا جا سکے اور یہ بات بھی ظاہر ہو رہی ہے کہ اُنہیں جیسے قانون کی آڑ میں تحفظ دیا جا سکے ۔
میں تو یہی کہوں گی جو مودی گجرات میں مسلمانوں کی خون کی ہولی کھیل سکتا ہے،جو گائے ذبح کرنے پہ سرعام مسلمان نوجوانوں کی گردنیں کاٹ سکتاہے،جو ہندو مسجدوں کے آگے گوبر کے ڈھیر لگاتے ہیں مودی سرکار اُس پہ بھی خاموش رہتی ہے تو وہ مودی کیسے تمام مسلمانوں کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے یہ بھارتی مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری دُنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے مودی سرکار کو عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عمل کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنا ہو گی۔