اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی چیلنج کر دی گئی،میاں دائود ایڈووکیٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں میاں دائود ایڈووکیٹ کی طرف سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی چیلنج کی گئی ہے۔ درخوات میں موقف اپنایا گیا ہے کہ جسٹس جہانگیری کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت رٹ آف کو وارانٹو کے ذریعے چیلنج کی گئی ہےرٹ آف کو وارنٹو میں سپریم کورٹ کے 1998 کے جسٹس سجاد علی شاہ کیس کو مرکزی قانونی بنیاد بنایا گیا ہے۔
درخواستگزار نے موقف اپنایا ہے کہ جسٹس جہانگیری کی وکیل بننے کی بنیادی قابلیت ایل ایل بی کی ڈگری غلط ہے،غلط ڈگری کی بنیاد پر جسٹس جہانگیری کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت بھی دائر ہو چکی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر التواء ہو تو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کسی جج کی ذاتی حیثیت میں انکوائری کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ کے فیصلے کی روشنی میں جسٹس جہانگیری کیخلاف آئینی درخواست قابل سماعت ہے،عدالت جسٹس طارق جہانگیری کی تعیناتی غیرآئینی قرار دے کر کالعدم قرار دے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کے مطابق انہوں نے یونیورسٹی آف کراچی سے ایل یل بی کیا،جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی پارٹ ون کو منسوب انرولمنٹ نمبر 5968 امتیاز احمد نامی شہری کا ہے،پارٹ ون کی مارک شیٹ پر نام طارق جہانگیری ولد محمد اکرم لکھا ہوا ہے۔ یونیورسٹی کی ٹیبولیشن شیٹ پر درج انرولمنٹ نمبر 5968 بھی امتیاز احمد کی بجائے طارق جہانگیر کو منسوب ہے، پارٹ ون اور پارٹ ٹو پر کالج کا نام گورنمنٹ اسلامیہ کالج لکھا ہوا ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کو منسوب پارٹ ٹو پر انرولنمنٹ نمبر 7124 لکھا ہوا ہے،پارٹ ٹو کی مارک شیٹ پر نام طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم لکھا ہوا ہےکالج پرنسپل کے لیٹر کے مطابق طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم 1984 تا 1991 تک کالج کا طالب علم ہی نہیں رہا۔ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کے مطابق ایک انرولمنٹ نمبر مکمل ڈگری کیلئے دو افراد کو الاٹ ہو ہی نہیں سکتا،سپریم کورٹ کا 9 رکنی بنچ 1998 میں ہائیکورٹ کے جج کو پبلک آفس ہولڈر اور پرسن قرار دے چکا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ رٹ آف کو وارنٹو میں کسی بھی شخص کیخلاف انکوائری کی پابند ہے۔