عجیب دن چل رہے ہیں ہر کوئی حال سے فرار اور ماضی میں پناہ چاہتا ہے ایسے ہی ماضی کی طرف منکشف ہوتے ہوئے دریچے انتہائی خوبصورت انسانوں کے جھرمٹ میں لے گئے جن میں ابا جی، پاء جی محمد اعظم شہیدؒ، معظم بھائی، محمد سعید بھٹی، سعید الرحمن بخاری، محمد ایوب بسرا (جو ترقی پسند ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’مصلی‘‘ لکھتے تھے)۔ اپنے ابا جی کے گھر کی بیٹھک اور کیا کیا محفلیں یاد آئیں۔ محمد سلمان کھوکھر، جناب پرویز صالح، پا محمد بشیر وڑائچ، ارشاد وڑائچ، جاوید رحمت بٹ شہید، حاجی ٹیپو خان، نعیم آصف مغل کئی پہلوان اور کئی کن ٹٹے، کئی سرکاری آفیسر، سیاست دان اور نہ جانے کیا کیا زمانے آنکھوں میں گزر گئے۔ ان میں آپ کے ذوق طبع کے لیے یاد آنے والے جناب پروفیسر محمد جہانگیر … پنجاب… مرزا امتیاز بیگ بھولی بہت یاد آئے… صاحب کی کتاب کے چند اقتباسات حوضر ہیں جو مجھے گلزار بھائی (گکزار احمد بٹ سپرنٹنڈنٹ جیل) کی وساطت سے ملے حاضر ہیں۔
علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
علم عقلی اور علم اصلی کا صاف اور واضح فرق وہ یہ بتاتے ہیں کہ
علم فقیہ و حکیم، فقر مسیحؑ و کلیمؑ
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
تاہم واضح حقیقت تو یہ ہے کہ پیغمبر کے کردار اور الہامی افکار ہی نے تاریخ اور تمدن فونوں کا رخ موڑا ہے بلکہ رخ پلٹا ہے مگر یہ بھی تاریخ کی شہادت ہے کہ جاننے سے لے کر ماننے اور محسوس کرنے تک کی انسانی کاوشیں یا پیغمبرانہ ہدایت و رہنمائی تک دونوں تاریخ انسانی کا سرمایہ ہیں مگر خدا کے آخری پیغام اور حتمی الہام، قرآن مجید کی روح رواں دواں دراصل مذہبی فکر کی رو سے کہیں آگے مشاہدۂ حق کا مقام ہے۔ اقبالؒ کے ہاں لفظ Discovery نورِ معرفت اور حقیقت ہی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اسی حوالے سے فقرِ مومن کی سیر چشمی اس نصب العین کے حصول پر منتج ہوتی ہے یہی معرفت ہے جو فقرِ مومن ہے اس لیے وہ دین و فقر کو مشاہدۂ حق کی منزل مقصود قرار دیتے اور فرماتے ہیں:
زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوز دماغ
علم میں لذت بھی ہے شہرت بھی ہے دولت بھی
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں، اپنا سراغ
اس لیے زندگی محض علم نہیں فی الواقعہ سوز و درد کا عمل ہے مگر یہ زندگی اور اس میں سوز و درد کہاں سے آتا ہے اصلاً یہی راز حیات اور اسرار کائنات ہے۔ اس روحانی رہنمائی کا نام اقبالؒ دین و فقر بتاتے ہیں جبکہ فقر کا وجود ان کے ہاں حضور سرکارِ دو عالمﷺ کی رحمت اللعالمینی کا فیض مسلسل ہے۔ جو الحق اور الخلق کے درمیان ربط و تعلق ہے کیونکہ آپﷺ ہر دور کی ضرورت ہیں اور یہی سراغ زندگی ہے۔ دن و فقر فی الحقیقت تہذیب نفس اور تزکیہ باطن کی حیات جاودانی ہے جو داخلی اور کارجی کشمکش سے صیقل ہو کر چمکتی ہے روشنی ہے، جسے اقبالؒ نے
حیات جاوداں، اندر ستیزاست
کہا ہے۔ یعنی زندگی جہد مسلسل کا نام ہے، یہی فقر مومن ہے اور یہی مرد مومن یا بندہ مومن کی متاع بے بہا ہے۔ مرد مومن کی اصطلاح پیش کر کے اقبال نے عصر حاضر کی طرف سے معلوم علمیت کے قابل شناخت عالم کی طرح موہوم معرفت کے ناقابل شناخت عارف کے چیلنج سے جواب دیا ہے۔ یہی مرد مومن معرفت کا معلوم عارف ہے اور اسلام کا مطلوب اور مقصود ہے کیونکہ بتاتے ہیں کہ:
فقر مقام نظر، علم مقام خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
یہی وہ حقیقی فرق ہے جو علم و عقل کے عقیدہ کی خبر اور دین و فقر کی عقیدت اور نظر میں ہے۔ اقبالؒ عقیدہ و ایمان سے آگے فکر اور اس کی حتمی صورت وجدان اور اس سے بھی کہیں آگے قلب و نظر کے عرفان اور معرفت کی بات کرتے ہیں جو مذہب نہیں دین ہے بلکہ دل ہے اور اس کی بیداری ہے اور یہی الہیاتِ رب باری ہے۔ یہ بندۂ مومن ہی روح عصر ہوتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ ہی اس کے تعارف اور معارف کی پرتیں کھولتے ہیں اور تشکیل کا ذریعہ بھی بتاتے ہیں کہ آدم گری اور انسان سازی تو نگاہ پاکﷺ اور صحبت پاکﷺ کا کرشمہ ہے:
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
نگاہ سے دل زندہ ہوتا ہے اور انسان تابندہ ہوتا ہے، فرمایا:
دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نگراں اور
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور
حقائق زندگی کا یہ ادراک حضرت علامہ اقبالؒ کے ہاں بکمال و تمام میسر ہے انکی صحبت کا فیض قاری کو آگہی کے لطف سے یوں سرشار کر دیتا ہے کہ وہ روحانیات کے راہرو (سالک) اور درویش و فقیر بالآخر جمال و جلال کے اس کمال تک پہنچ جاتے ہیں کہ
’’انکی‘‘ نگاہ توڑ دے، آئینہ مہر و ماہ
آئیں! مجلسِ اقبالؒ سے حقیقت و معرفت کے ایک دو جام نوش جاں کریں۔ کہ انہی کا ارشاد ہے کہ
بیآ بہ مجلسِ اقبالؒ و یک دو، ساغر کش
زندگی انمول تحفہ ہے جو جس ملک، سن اور والدین کے ذریعے عطا ہو گئی ہے، بہر حال اور بہر طور زندگی بڑی شے ہے۔ عبدالحمید عدم نے سچ کہا ہے کہ:
زندگی جس قدر اداس بھی ہو
با خدا زندگی بڑی شے ہے
دوستوں کو یہی نصیحت ہے
خواہشوں کی کمی بڑی شے ہے
عمر بھر کی خواہشات کے گرداب میں دھنسی اور پھنسی زندگی کے لیے حقیقت کی راہ کلام اور پیام اقبال سے بخوبی میسر ہے۔ اس کے لیے دبستان اقبال میں داخلہ لینا چاہئے۔۔۔ یقینا اس سے ان کی یہ دعا بھی قبول ہو کر رہے گی کہ:
خدایا! آرزو میری ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
سوال یہ ہے کہ اقبالؒ کا نور بصیرت کیا ہے، علم ہے کہ الہام؟ اس پر فنی مشق کے حامل اہل قلم نے ان کی نثر اور نظم میں مطابقت کے بجائے تناقص ہی نہیں، تضاد ہی نہیں فساد تک کے بیج بو دیئے ہیں، بعض اہل علم کو شکوہ ہے، ان کے خطبات خاصے کی چیز ہیں کہ انہیں محض شاعرانہ حوالے سے ہی پہچانا جاتا ہے، بعض ’’ساحلی‘‘ دعویٰ کرتے ہیں کہ اقبالؒ کو خطبات پر پشیمانی تھی بلکہ مولانا سلیمان ندوی تک کے حوالے سے بات بنانے کی کوشش کی کہ اقبالؒ خطبات نہ دیتے بلکہ شاعری ہی کرتے مگر وہ کیا کرتے جو انہوں نے کیا یہی کرنا تھا۔ ان کا شعر الہام ہے اور اس میں حقیقی تفسیرِ ’’قرآن مضمر است‘‘ ہے۔
میرے والدین، پاء جی محمد اعظمؒ، معظم بھائی (جنت مکین) کے درودیوار گلی کوچوں اور دستر خوان کے شرکاء کو عیدمبارک و سلام۔