محمد یوسف خان دلیپ کمار کی 1922ء میں پشاور کے محلہ خدا داد میں والد غلام سرور کے ہاں ولادت سے 7 جولائی 2021ء کی صبح 7:30 بجے ممبئی کے ہندو جا ہسپتال میں مالک حقیقی سے وصال تک زندگی کی تفصیلات اخبار ات میں شائع ہو چکیں۔ فلمی کیریئر میں جوار بھاٹا سے شکستی تک کا منی کوشل، مدھو بالا، وجنتی مالا، اسماء رحمن سائرہ بانو تک فلمی اور ازدواجی زندگی کا لمحہ لمحہ اخبارات، ٹی وی چینلز پر دہرا دیا گیا۔ دلیپ کمار نے ہندوستان کے سب سے بڑے ایوارڈ اور 8/8 بار ایوارڈز لیے۔
دلیپ کمار صاحب انتہائی ادب دوست، حساس اور محبت کرنے والے صاف دل جذبات سے بھرپور انسان تھے۔ ان کے پورے فلمی کیریئر میں کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں آیا کہ ان کو اس فکر نے آ لیا ہو کہ کوئی دوسرا ان کے کام اور مقام سے آگے نکل جائے گا۔حالانکہ موسیقی، اداکاری، ناچ گانا، ان سب پر ان کا راج تھا۔ اجارہ داری اور ہندو بنئے کے تعصب کا ماحول تھا۔
یہاں تک کہ محمد یوسف خان کو اپنا نام فلمی نام دلیپ کمار رکھنا پڑا جیسے سید موسیٰ رضا نے سنتوش کمار۔ اس وقت کے فلم انڈسٹری کے ”بھولو برادران“ میری مراد کپور خاندان ہے، کی حویلی کا آہنی گیٹ اکھاڑ کر اندر داخل ہوئے۔
آج تک جتنے بھی صاحب ذوق اور صاحب شعور لوگوں سے کبھی ازراہ گفتگو دلیپ صاحب کا ذکر چھڑ گیا تو پھر محفل اور گفتگو کا اختتام دلیپ صاحب پر ہی ہوا اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ہر شخص دلیپ صاحب دلیپ کمار صاحب کہہ پکارتا نہ کہ خالی دلیپ کمار۔ وجہ یہ ہے کہ دلیپ کمار صاحب نے اداکاری کے شعبہ کو عزت دی۔ دلیپ کمار وہ پہلے اداکار ہیں جن کے مد مقابل ہیروئن کو لوگ مرکز نگار نہ بناتے دلیپ کمار پر ان کے مدمقابل کوئی ادکار بھی ہوتو لوگ خاطر میں نہ لاتے۔ حد یہ ہے کہ مدمقابل پر توجہ کے لیے ڈائریکٹر کو کیمرہ اور سکرین پر دلیپ کمار صاحب کے بجائے صرف اس کو دکھانا پڑتا۔ برصغیر کے واحد فنکار تھے جن کے نام پر فلم بزنس کرتی۔ جن کے مدمقابل جو ہیروئن آتی دلیپ صاحب کے ساتھ کام کرنا اس کا اعزا ز بن جاتااور اس کی قیمت بڑھا دیتا۔
میں کوئی ہدایت کار یا اداکار تو نہیں عام فلم بین ہوں مگر سینئر پروڈیوسر امیر حمزہ آصف Discover Pakistan کہتے ہیں کہ ان کا فٹ ورک، ہاتھوں کی حرکت، مکالمہ ادائیگی، آنکھوں کے تاثرات، الفاظ کے تلفظ کی شفافیت لہجے، اتار چڑھاؤ باڈی ورک، جسمانی حرکیت، الفاظ، منظرنامے میں اس طرح گھل مل جاتی جیسے ہوا میں آکسیجن اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلیپ کمار المیہ کردار کے تسلسل اور اس کردار میں ڈوب جانے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار رہنے لگے جس پر ڈاکٹروں سائیکٹرسٹ نے مشورہ دیا کہ آپ کچھ ہلکے پھلکے اور ہنسے ہنسانے والے کردار بھی کیاکریں۔
دلیپ کمار صاحب نے پھر ہنسنے ہنسانے والے کردار بھی اداکیے جنہوں نے بتا دیا کہ دلیپ کمار صاحب کامیڈی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
ان کی فلم دیکھنے کے بعد لوگ گلی محلہ تھڑوں پر گھنٹوں ان کے مکالمے دہراتے اور محفل میں ان کو کاپی کر کے اپنی محفل کو دو آتشہ کرتے رہے۔ دلیپ کمارایک ضرب المثل اداکار اور انسان تھے جن کے
فن پر پوری دنیا میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ مجھے شرف حاصل ہے کہ امریکہ میں تاج ہوٹل میں دیوالی کے موقع پر سکھ جو کاروبار کا مالک تھا نے دعوت دی تو وہاں دلیپ کمارصاحب سے ملاقات ہوئی مگر صرف ہاتھ ملانے تک اور اپنا پاکستانی مسلمان ہونے تک بات ہو سکی۔ بھارت میں دلیپ کمار صاحب کے ساتھ تعصب کا یہ عالم ہے کہ ایک تقریب میں دلیپ کمار صاحب کو ایوارڈ دیا جا رہا ہے کپور خاندان بھی بیٹھا ہوا ہے جب دلیپ کمار سٹیج پر ایوار ڈ وصول کرنے آئے تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور تمام لوگ احترام میں کھڑے ہو گئے۔ سوائے کپور خاندان کے۔ کیونکہ دلیپ صاحب نے کپورے ایسے بٹھائے کہ فلم انڈسٹری میں ان کو پھر کبھی وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جو دلیپ صاحب سے پہلے تھے۔ دلیپ کمارصاحب کی عام تقریبات میں گفتگو، لفاظی، لغت، الفاظ کی صورت حال سے جگلبندی اپنی مثال آپ تھی۔ لوگ انکے فلمی مکالموں کی طرح تقریبات میں بولے گئے الفاظ بھی مکالموں کی طرح دہراتے رہتے۔ ان کی گفتگو اردو ادب کا شاہکار گفتگو ہوتی۔ برادرم زاہد حسین خان (ہیرو) کہتے ہیں بھارت گئے دلیپ کمارصاحب کے ساتھ ملاقات رہی۔ ان کے ساتھ ایک پاکستانی گلوکار تھے نام یاد نہیں اس نے استاد نزاکت علی سلامت علی کا ذکر کیا جس پر دلیپ کمار صاحب رک گئے۔ آدھے بازو کی شرٹ پہنے ہوئے تھے کہنے لگے ”40سال پہلے فلاں کے گھر ان کی گائیکی سنی۔ انہوں نے راگ بھیراگی بھیروں گایا تھا اور ساتھ اپنے بازوؤں کی طرف اشارہ کیا۔ دلیپ کمار صاحب کے رونگٹے کھڑے تھے اور ان کی آنکھیں 40 سال پیچھے چلی گئیں“۔ میں نے کیا تبصرہ کرنا ہے۔ میرے بڑے بھائی اللہ سلامت رکھے گلزار بھائی کی شادی پر اداکار اقبال حسن تشریف لائے پاکستان میں فلمساز لکھنے والوں سے کہتے کہ اقبال حسن کو مدنظر رکھ کر ینگ ٹو اولڈ کردار لکھیں۔ میں نے اقبال حسن سے پوچھا کہ شکتی میں دلیپ کمار صاحب اور امتیابھ بچن ہیں آپ کیا کہتے ہیں۔اس میں ایک منظر ہے جس میں دلیپ کمارصاحب کی بیوی راکھی قتل ہوتی ہے۔ بیٹا امتیابھ بچن جیل سے پیرول پر آخری رسومات کے لیے پولیس کی حراست میں آتا ہے۔ دلیپ کمار پولیس آفیسر ہیں زمین پر بیٹھے سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اقبال حسن نے کہا کہ دلیپ صاحب نے صرف چہرے کا رخ آدھا سا موڑ کر ایک آنسو میں امتیابھ بچن فنا کر دیا۔ دلیپ صاحب جیسی ہستی روز روز پیدا نہیں ہوا کرتی۔
سینئر ڈائریکٹر، پروڈیوسر امیر حمزہ آصف کہتے ہیں کہ ”دلیپ کمار صاحب کی آنکھوں کے تاثرات کا جواب نہیں تھا۔ غصہ اور انتقام کے کردار اور منظر میں آنکھوں سے ایسا تاثر دیتے کہ جیسے ہمالیہ الٹا کر رکھ دیں گے جبکہ آج کے اداکار جم کر کے باڈی بلڈر بن جاتے ہیں کہ طاقتور انتقامی کردار پر پورا اتر سکیں لیکن دلیپ کمار صاحب کی آنکھیں طاقت، غصے اور انتقام کا اظہار ان کی باڈی سے کروڑ گنا زیادہ کر جاتے اور اداکاری میں فٹ ورک سے بڑھ کر ہاتھوں کی حرکیت کی اہمیت ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ تقریر کرتے وقت انسان کو ہاتھ کہاں رکھنے ہیں۔ ان کی حرکت کیسے کرنی ہے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کرتا ہے جبکہ آپ دلیپ کمار صاحب کے ہاتھوں کی حرکت کو بھی نوٹس کریں پکڑائی نہیں دیتے۔ دلیپ صاحب کے لوگ محض مداح نہیں بلکہ عاشق تھے۔
دلیپ کمار صاحب کے پورے گھر میں سپیکر سسٹم تھا مخصوص اوقات میں تلاوت پاک باتھ رومز کے علاوہ پورے گھر میں سنائی دیتی، دلیپ کمار صاحب کے ہاتھ سے کی گئی قرآنی آیات کی خطاطی ان کے گھر میں جا بجا ملتی اور عبادت و مراقبہ کے لیے الگ کمرہ بنا رکھا تھا۔
دلیپ کمار صاحب کے لیے لکھتے لکھتے میں خود ڈپریشن میں چلا گیا فلم نگری میں ان سے زیادہ مقبول ترین اور راج کرنے والی شخصیت کبھی نہیں آئے گی۔ گوجرانوالہ کے قبلہ حافظ انجم سعید کہتے ہیں آج مکالمہ ادائیگی، اداکاری اور اس کا تاثر versatality ہیرو شپ، آواز کی رعنائی اور زیرو بم اور سب سے بڑھ کر محبت کے ماروں کے پاؤں ہی نہیں سانس بھی اکھڑ گئے ایسی سادگی، وارفتگی، معصومیت، والہیت، اپنائیت، شرافت، شرارت، المیہ اور شرف کا تال میل اب کہاں سے لاؤں؟
دلیپ کمار صاحب اور سائرہ بانو جو کہ ٹین ایج میں دلیپ صاحب پر فدا ہوئیں دونوں کی لازوال وفا اور محبت کی کہانی 7 جولائی ہندو جا ہسپتال میں 7:30بجے مکمل ہوئی۔
دراصل کچھ لوگ دنیا میں آتے ہیں اور بدن اپنے اپنے مذہبی عقائد اور رسومات کے ساتھ اپنا سفر مکمل کرتے ہیں مگر ان کے نام کام اور روح کا سفر جاری رہتا ہے۔ دلیپ صاحب کل بھی تھے آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔