فیصل آبادپریس کلب کی انتظامیہ نے مقامی صحافیوں کے لئے سوات، منگورہ، مٹہ، مدین، بحرین، کالام، مالم جبہ، بٹ خیلہ اور دیگر کئی خوبصورت مقامات کی سیر کا اہتمام کیا۔ تین روز تک جاری رہنے والے اس ٹور میں ہم نے دیکھا کہ وہ وادیئ سوات جہاں کبھی حکومت کی عملداری نہ ہونے کے برابر تھی ہمارے سکیورٹی اداروں سمیت عام لوگوں کے سر کاٹے جا رہے تھے، طالبات کے سکولوں کو بند کر دیا گیا تھا وہاں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ تین دن تک ہم ان پراسرار اور حسین وادیوں میں بلا روک ٹوک دن اور رات کے اوقات میں پہروں دریا کے کنارے، خوبصورت وادیوں کے سنگم پر اور پہاڑوں کے دامن میں بیٹھے کبھی موسیقی سے، کبھی خوش گپیوں سے، کبھی شاعری سے اور کبھی طرح طرح کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جہاں کبھی دہشت گردوں کا راج تھا وہاں پاک آرمی کے کامیاب آپریشن کے سبب معمولاتِ زندگی بحال ہو چکے ہیں، تمام سکول کھل چکے ہیں، کاروباری سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے وہاں پر پھر سے آباد ہو گئے ہیں۔ کالام، سوات، مٹہ، بحرین، مالم جبہ، بٹ خیلہ کے تجارتی و کاروباری علاقوں کی رونقیں لوٹ آئی ہیں اور لوگ اب رات گئے تک بازاروں اور دوکانوں میں خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے علاوہ پولیس چوکیوں میں بھی افسر اور اہلکار خندہ پیشانی سے آنے والے مہمانوں کے لئے نہ صرف سکیورٹی فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کی سیاحت کے حوالے سے رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے وطن کے جنت نظیرعلاقوں، جھیلوں اور آبشاروں کو کسی کی نظر لگ گئی تھی کہ وہاں دہشت گردی کے سبب ہمارا آنا جانا ایک خواب ہو گیا تھا مگر پاک فوج کو سلام کہ اس کے جوانوں نے سوات اور ایسے ہی دوسرے علاقوں میں قربانیاں دے کر ہم جیسوں کے لئے حالات نارمل کئے۔ ہمارے پہاری علاقوں ناران، کاغان، کالام، مالم جبہ، سوات اور کشمیر میں بیسیوں بڑے بڑے ہوٹل بن گئے تھے پاکستان سے غیر ممالک تک کے سیاحوں اور فیملیوں کے لئے ایسے سپاٹ بن گئے تھے جہاں رش کے سبب رہائش کے لئے کمرے نہیں ملتے تھے۔ بعد ازاں امن کے دشمنوں نے ہمارے یہ علاقے ویران کر دئیے تھے۔ پاک فوج نے ملک
کو ان دشمنوں سے پاک کر دیا ہے جو چند عناصر رہ گئے ہیں وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
اس تاریک دور میں ان شرپسندوں نے نہ صرف پاک فوج کے جوانوں اور اور افسروں کے سر نیزوں پر بلند کر کے بازاروں میں پھرائے بلکہ ان غدارانِ وطن نے ملک دشمن قوتوں کی مدد سے پاکستان کے 12 ہزار کلو میٹر رقبے پر قبضہ کر کے ہماری خود مختاری اور سا لمیت پر کاری ضرب اس طرح لگائی کہ پاکستان عالمی برادری میں تماشا بن کر رہ گیا۔ یہاں دہشت گرد، انتہا پسند اور ملک دشمن عناصر دندناتے پھرتے تھے۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جب پاکستان میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ان بم دھماکوں میں نہ صرف ہزاروں پاکستانی شہریوں نے نا کردہ گناہوں کی سزا بھگتی بلکہ پاکستان نے دہشتگردی کی اس جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان بھی اٹھایا۔ 2013ء تک دہشتگردی اور انتہا پسندی نے ایک خطرناک صورت اختیار کر لی تھی اور کوئی دن ایسا نہ تھا جب بے گناہ قیمتی جانیں دھماکوں کی نظر نہ ہو رہی ہوں۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ چکی تھی اتنی زیادہ کہ دہشت گرد حکومتی اداروں کو باقاعدہ نشانہ بنا کر انہیں شدید نقصان پہنچا رہے تھے۔ پھر شمالی وزیرستان میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے فوج پیش قدمی کرتی تھی دہشت گردوں کے بنائے گئے مورچوں اور کمین گاہوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں خصوصی تربیت اور وسائل میسر رہے۔ اس کا تجربہ پاک فوج کو باجوڑ میں ہوا وہاں جب کارروائی کی گئی تو پتہ چلا کہ طوطے کی ناک جیسے منہ والے بنکر اتنی مہارت اور عمدہ مٹیریل سے تیار کئے گئے تھے کہ خود پاک فوج کو اس طرح کے بنکرز دستیاب نہیں تھے۔ یہ اس طرح کے بنکر تھے جن پر راکٹ یا ٹینک کے گولے کا براہِ راست نشانہ نہیں لگ سکتا تھا۔ ان بنکرز کو تسخیر کرنے کے لئے فوج کو خصوصی طریقے اختیار کرنا پڑے۔ سوات اور اس کے گرد و نواح میں نئی طرز کے بنکرز اور کمین گاہیں دیکھنے میں آئی تھیں اور خونخوار جنگجوؤں نے آمد و رفت کے راستوں کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا تھا۔ جن کا نشانہ پاک فوج سے زیادہ بے گناہ شہری بنتے رہے۔ اتنے مشکل حالات میں فوج نے یہ جنگ لڑی اور جیتی بھی۔
سوات میں شریعت کے نفاذ اور اسلام کے نام پر جس طرح مسلمانوں کو ذبح کیا جاتا رہا ہے اور مقتولین کی لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی رہی ہے وہ اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو جنم دیتی رہی۔ اس جنگ کی سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں اور دنیا میں اس احساس کو نئی سیاسی طاقت دی ہے کہ ہم واقعی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نجات چاہتے ہیں۔ وہ دنیا جو کل تک ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی آج وہ پاکستان کی سیاسی اور بالخصوص عسکری قیادت کے اقدامات اور کمٹمنٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ اس جنگ سے نمٹنے میں سب سے اہم فریق جنرل راحیل شریف تھے کیونکہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ماضی میں ہماری سیاسی و عسکری قیادت کافی الجھاؤ کا شکار رہی جو بڑے فیصلے کرنے میں رکاوٹ بنا۔ آپریشن ضربِ عضب ایک ایسی جنگ ہے جو ایک طرف انتظامی طاقت سے لڑی جانی تھی تو دوسری طرف یہ ایک فکر کی بھی جنگ تھی لوگوں میں ایک احساس اجاگرکیا گیا کہ ہمیں طاقت اور بندوق کی حکمرانی کے مقابلے میں قانون کی حکمرانی اور مکالمہ کو سیاسی ہتھیار بنا کر اپنی جد و جہد کو سیاسی و جمہوری فریم ورک میں ہی تلاش کرنا ہو گا، یہ جنگ فوج کی ایک بڑی خدمت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کی سیاسی گورنمنٹ کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جس نے سکیورٹی اداروں کی بھرپور معاونت کی۔ اس طرح دو سال کے قلیل عرصہ میں ضربِ عضب کے تحت شروع کئے گئے آپریشن نے 100 فیصد اہداف حاصل کر لئے۔
جہاں آج ہم اس ٹور کے بعد افواجِ پاکستان اور اس وقت کی سیاسی قیادت کی تعریف کر رہے ہیں وہاں کچھ پاکستان مخالف قوتوں کو آپریشن ضربِ عضب اور رد الفساد کی کامیابی ناگوار بھی گزر رہی ہے۔ یہ آپریشن صرف سوات میں ہی نہیں بلکہ شمالی وزیرستان سمیت پورے ملک میں شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد پاکستان کو دہشگردی سے پاک کرنا اور اس دہشتگردی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ افواجِ پاکستان دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے افغانستان بارڈر پر پہنچنے کے بعد سرحد کے ساتھ باڑ لگا رہی ہے جو اب تکمیل کے مراحل کے قریب اس طرح یہ بارڈر بالکل محفوظ ہو گیا ہے۔ ہم فیصل آباد کے صحافی ان وادیوں کے لوگوں اور اپنے سیکورٹی اداروں کے لئے محبت، دوستی، بھائی چارے، ملکی استحکام اور قومی سلامتی کا پیغام لے کر گئے تھے۔ ہمارا یہ سیاحتی دورہ نہ صرف بہت کامیاب رہا بلکہ ہم نے دل کھول کر لطف اٹھایا۔