اسلام آباد: پاناما لیکس کیس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے 13 سوالات کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ اہم شخصیات کے ریکارڈ بیانات اور دستاویزات کی تفتیش کا تمام نچوڑ آج رپورٹ کی شکل میں سپریم کورٹ کو پیش کیا جائے گا۔ پاناما کیس میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ آج معاملے کی سماعت کریگا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا اپنے تمام ارکان کے ہمراہ حتمی رپورٹ بینچ کو پیش کرینگے۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
ذرائع کے مطابق اتوار کے روز جے آئی ٹی کا اجلاس واجد ضیا کی سربراہی میں ہوا جس میں حتمی رپورٹ کی تیاری کا کام جاری رہا۔ رپورٹ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں پر لگنے والے الزامات کے درست یا غلط ہونے سے متعلق حقائق پر مبنی ہو گی ۔ رپورٹ میں جے آئی ٹی کی سفارشات بھی شامل ہونگی۔ سرکاری حکام اور حدیبیہ پیپر ملز کیس میں تفتیش کرنے والے ایف آئی اے اور نیب کے سابق ملازمین کے بیانات کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔
قطری شہزادے حمد بن جاسم کو لکھے جانے والے خطوط اور حمد بن جاسم کے جوابات کی الگ سے ایک فائل تیار کی گئی ہے۔ شریف فیملی سے متعلق سرکاری اداروں کے ریکارڈ اور ایف بی آر کی جانب سے متعلقہ ریکارڈ کی عدم فرا ہمی کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ایس ای سی پی کی ریکارڈ ٹمپرنگ، بیرون ملک اور آڈٹ فرمز کی رپورٹ اور دبئی سے ملنے والی دستاویزات بھی رپورٹ میں شامل ہیں۔
عدالت اس رپورٹ کا مکمل تجزیہ کرنے اور جائزہ لینے کے بعد شارٹ آرڈر بھی دے سکتی ہے جبکہ سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو ریفر کر سکتی ہے کہ وہ معاملے پر نیا بینچ تشکیل دیں یا پرانا بینچ ہی سماعت کرے۔
جے آئی ٹی کی کارروائی
یاد رہے جے آئی ٹی نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں 8 مئی2017 سے کام کا آغاز کیا تھا۔ جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز، وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری، سابق چیئرمین نیب محمد امجد، صدر نیشنل بینک، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین ایس ای سی پی ایک بار جبکہ وزیر اعظم کے کزن طارق شفیع 2 بار، وزیر اعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز 6 بار اور حسن نواز 3 بار پیش ہوئے۔ اس کے علاوہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی تفتیش سے منسلک افسران بھی پیش ہوئے۔
جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو تین جبکہ قطری نے جے آئی ٹی کو چار خط لکھے اور قطری شہزادہ اپنے محل میں بیان ریکارڈ کرانے پر بضد رہا جبکہ جے آئی ٹی نے انہیں پاکستانی سفارتخانے میں آنے کی آفر کی تھی ۔ جے آئی ٹی نے 60 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرنا تھی جو آج پیش کی جائے گی۔
جے آئی ٹی کے کل 60 اجلاس منعقد ہوئے اور آخری اجلاس گزشتہ روز ہوا۔ واضح رہے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 126 دن سماعت کے بعد 20 اپریل کو اپنے فیصلے میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا تاکہ شریف خاندان کی رقوم کی قطر سے منتقلی کی تحقیقات کی جا سکیں۔
دو ججز نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جبکہ تین نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے اختلافی نوٹ تحریر کیے تھے۔
جے آئی ٹی کو دیئے جانے والے سوالات
پانچ رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو اس کیس کے حوالے سے مزید تحقیقات کیلئے 13 سوالات دیئے تھے
- گلف اسٹیل مل کیسے وجود میں آئی؟
- فروخت کیوں کی گئی؟
- اس کے ذمہ واجبات کا کیا بنا؟
- فروخت سے حاصل رقم کہاں استعمال ہوئی؟
- رقم جدہ، قطر اور پھر برطانیہ کیسے منتقل کی گئی؟
- کیا 90 کی دہائی کے اوائل میں حسن اور حسین نواز اپنی کم عمری کے باوجود اس قابل تھے کہ وہ فلیٹس خریدتے یا ان کے مالک بنتے؟
- قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خطوط کا اچانک منظر عام پر آنا حقیقت ہے یا افسانہ؟
- حصص بازار میں موجود شیئرز فلیٹس میں کیسے تبدیل ہوئے؟
- نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیوں کے اصل مالکان کون ہیں؟
- ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ نامی کمپنی کیسے وجود میں آئی؟
- حسن نواز کی زیر ملکیت فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے لیے رقم کہاں سے آئی؟
- ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟
- حسین نواز نے اپنے والد نواز شریف کو جو کروڑوں روپے تحفتاً دئیے وہ کہاں سے آئے؟
یہ بھی یاد رہے کہ بینچ نے نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل62,63 کے حوالے سے نااہل قرار دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور قرار دیا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا۔
بعد ازاں چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی تھی اس کے دیگر ارکان میں اسٹیٹ بینک سے عامر عزیز، ایس ای سی پی کے نمائندے بلال رسول، نیب سے عرفان نعیم منگی ، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر محمد نعمان سعید جبکہ ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے۔
جے آئی ٹی کو ہدایت کی گئی تھی کہ ساٹھ یوم میں تحقیقات کر کے حتمی رپورٹ دے ۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی ارکان کی سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا۔ ادھر اسلام آباد کے ریڈ زون میں خصوصی الرٹ رہیگا اور آج سپریم کورٹ کے باہر اور اندر خصوصی سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ عدالت کے باہر اور اندر چار سو سے زائد رینجرز اور وفاقی پولیس کے اہلکار تعینات ہونگے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں