صوبہ فرح گوگی اور احسن گجر نے چلایا، پیچھے بشریٰ بی بی تھی ، ڈی سی اور ڈی پی او کا ریٹ 3 ، کمشنر اور آر پی او کا ریٹ 4 کروڑ تھا: علیم خان کے مزید انکشافات

12:22 PM, 10 Jan, 2023

نیوویب ڈیسک

لاہور : پاکستان تحریک انصاف کے سابق سینئر رہنما عبدالعلیم خان کی طرف سے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار بشریٰ بی بی، فرح گوگی اور احسن جمیل گجر کا پروجیکٹ تھا۔  صوبہ بھی فرح گوگی ، احسن گجر نے چلایا پیچھے بشریٰ بی بی تھیں۔ 

سینئر صحافی جاوید چودھری نے اپنے کالم میں عبدالعلیم خان سے انٹرویو کی مزید تفصیلات بیان کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ  میں نے علیم خان سے پوچھا ’’کیا آپ عثمان بزدار کو جانتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ہم بالکل نہیں جانتے تھے‘ یہ جہانگیر ترین کے ذریعے پارٹی میں آئے تھے‘ یہ انھیں ذرا ذرا پہچانتے تھے ‘میں سرے سے ان سے واقف نہیں تھا‘ میں نیب کی پیشی کے بعد اسلام آباد آیا‘ بنی گالا گیا تو عمران خان نے میری اور جہانگیر ترین کی اس سے ملاقات کرائی۔

عثمان بزدار بشریٰ بی بی‘ فرح گوگی اور احسن جمیل گجر کا پروجیکٹ تھا اور اس کے لیے عمران خان کو باقاعدہ ٹریپ کیا گیا تھا ۔  پنجاب میں حماقتوں کا سیلاب آ گیا ۔ بزدار صاحب نالائق بھی تھے اور کرپٹ بھی‘ یہ ایم پی اے بننے کے بعد پرویز الٰہی کے سیکرٹری محمد خان بھٹی کے پاس کمرہ لینے کے لیے گئے تھے اور اس نے انھیں صاف انکار کر دیا تھا لیکن یہ دو ہفتے بعد پنجاب کا سی ایم تھا۔

 عثمان بزدار شروع میں ہر چیز کو حیرت سے دیکھتا تھا۔سی ایم آفس کی چھت شیشے کی ہے اور یہ اوپن ایبل ہے‘ یہ اس کے نیچے کھڑا ہو کر اسے کبھی کھلواتا تھا اور کبھی بند کراتا تھا اور بچوں کی طرح خوش ہوتا تھا ۔ سرکاری میٹنگز میں بھی ہر چیز اس کے سر کے اوپر سے گزر جاتی تھی‘ ہماری بجٹ کی میٹنگ تھی ۔ سیکرٹری خزانہ نے دو گھنٹے پریزنٹیشن دی۔

عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار حیرت سے کبھی سلائیڈز کو دیکھتا تھا اور کبھی سیکرٹری خزانہ کو‘ میٹنگ کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا‘ خان صاحب اب کیا کریں؟ میں نے کہا ‘آپ اب ان کا شکریہ ادا کریں اور اٹھ جائیں‘ اس نے شکریہ ادا کیا اور اٹھ کر چلاگیا۔

عبدالعلیم خان نے مزید بتایا کہ ابتدائی دنوں میں نیس پاک(NESPAK) کی ٹیم پریزنٹیشن کے لیے آئی‘ وزیراعلیٰ نے پریزنٹیشن کے دوران انھیں روک کر پانی کی بوتل کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا آپ لوگوں کا چھتوں‘ دیواروں اور پلوں کے ساتھ کیا تعلق ہے‘ آپ تو پانی کی بوتلیں بیچتے تھے‘ پوری ٹیم حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگی‘ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔

وزیراعلیٰ نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا‘ اچھا اچھا پھر نیسلے بلڈنگز بھی بناتی ہو گی ۔ ہمارے وزیراعلیٰ کو نیسلے اور نیس پاک کا فرق معلوم نہیں تھا۔ ڈی سی اور ڈی پی او لگنے کاریٹ تین کروڑ روپے تھا‘ چار کروڑ روپے میں کمشنر اور آر پی او کی سیٹ بکتی تھی اور ان افسروں کو باقاعدہ بتایا جاتا تھا تمہارے پاس اتنے مہینے ہیں‘ تم نے ان میں اپنے پیسے پورے کرنے ہیں ۔ 

عبدالعلیم خان کے مطابق سی ایم کے دو پرنسپل آفیسر اور دو اسٹاف آفیسر وصولیاں کرتے تھے‘ عثمان بزدار کا پرنسپل سیکریٹری طاہر خورشید (ٹی کے)سرغنہ تھا‘‘ ۔ یہ ساری کولیکشن فرح گوگی تک جاتی تھی اور اس کے بعد کہاں جاتی تھی یہ ہم نہیں جانتے تھے لیکن یہ طے تھا صوبہ عملاً فرح گوگی اور احسن جمیل چلاتے تھے اور ان کے پیچھے بشریٰ بی بی تھی ۔ فرح گوگی اس قدر طاقتور تھی کہ اس نے میری رہائی کے بعد مجھے اپنے گھر بلایا‘ یہ ڈیفنس کے وائے بلاک میں رہتی تھی۔

عبدالعلیم خان نے کہا کہ اس نے مجھے کہا ہم آپ کو دوبارہ وزیر بنا رہے ہیں‘ آپ بتائیں آپ کو کون سی وزارت چاہیے اور پھر اس نے میرا باقاعدہ انٹرویو لیا اور اس انٹرویو کے بعد مجھے صوبائی وزارت خوراک ملی‘ پنجاب اور وفاق کے سیکرٹریوں کی تعیناتی سے پہلے عمران خان ان کی تصویریں بشریٰ بی بی کو بھجواتے تھے اور بشریٰ بی بی سیکریٹریوں کی شکل اور نام دیکھ کر تعیناتی کا فیصلہ کرتی تھی اور پھر وزیراعظم کا پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور چیف سیکریٹری پنجاب نوٹی فکیشن جاری کر تا تھا۔ 

عبدالعلیم خان نے کہا کہ میں چھ ماہ بعد وزیراعظم کے پاس گیا ۔ انھیں ساری صورت حال بتائی اور درخواست کی آپ مجھے وفاق میں لے آئیں ۔ میں پنجاب میں کام نہیں کر سکتا ۔ وزیراعظم نے میری بات سنی اور پھر مجھے 6 فروری 2019کو نیب نے گرفتار کر لیا اور میں سو دن اس کی حراست میں رہا‘ یہ وزیراعظم کو صورت حال بتانے کی سزا تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے عمران خان سے سب سے بڑا گلہ بھی یہی ہے ۔ یہ بے شک مجھے وزیراعلیٰ نہ بناتے ۔  یہ مجھے وزارت بھی نہ دیتے ۔ یہ ان کا اختیار تھا لیکن انھیں مجھے جیل میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا ۔ میں اتنی خدمت اور وفاداری کے بعد یہ ڈیزرو نہیں کرتا تھا‘ میں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو کیا کیا گالی نہیں دی تھی لیکن ان لوگوں نے بھی میرے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا تھا مگر میں نے جس کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اس نے مجھے جیل میں ننگے فرش پر پھینک دیا۔

یہ ظلم ہے‘‘ علیم خان جذباتی ہو گئے‘ کمرے میں خاموشی چھا گئی‘ میں (جاوید چودھری) نے پوچھا ’’کیا آپ رہائی کے بعد خان صاحب سے ملے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’جی میں ملا اور ان کا کہنا تھا‘ ڈی جی آئی تمہارے خلاف ہیں ‘ میں نے ان سے کہا‘ خان صاحب میرا ڈی جی آئی سے کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔

آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو جواب مل جائے گا لیکن انھوں نے میرا کیس انھی کے کھاتے میں ڈال دیا‘‘ میں (جاوید چودھری)  نے پوچھا ’’آپ کے دورمیں حکومت آخر کون چلا رہا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’بشریٰ بی بی‘ فرح گوگی‘ ایک بزنس مین اور جنرل فیض‘ ہماری ساری حکومت یہ تھی‘‘ میں (جاوید چودھری)  نے پوچھا ۔ جنرل باجوہ کا کیا کنٹری بیوشن تھا؟‘‘ یہ فوراً بولے ’’جنرل باجوہ عمران خان کے سب سے بڑے محسن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یاسمین راشد کی مثال دیتا ہوں ۔ یاسمین راشد این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں کلثوم نواز کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھیں  پارٹی کی میٹنگ میں یاسمین راشد سے پوچھا گیا‘ الیکشن کے اخراجات کون کرے گا؟ میڈم کا جواب تھا میرے بھائی بیرون ملک سے پیسے بھجوا دیں گے اور میں الیکشن لڑ لوں گی‘ ہم مطمئن ہو گئے ‘الیکشن کا وقت قریب آ گیا مگر پیسے نہ آئے‘ پریشانی میں ایک اور میٹنگ ہوئی تو خان صاحب نے ہم سے کہہ دیا‘ آپ لوگ ہی بندوبست کر دیں۔

ہم اکٹھے ہوئے  جہانگیر ترین نے دو کروڑ روپے دیے‘ میں نے ایک کروڑ دیا‘ نذیر چوہان نے بھی کنٹری بیوٹ کیا اور 50 لاکھ روپے کا چیک جمشید چیمہ نے دیا مگر یہ چیک بعدازاں باؤنس ہو گیا‘ بہرحال ہم نے 6 کروڑ روپے جمع کیے اور میڈم یاسمین راشد کا الیکشن ہو گیا‘ میڈم نے اپنے الیکشن پر ایک روپیہ خرچ نہیں کیا لیکن انھوں نے آج تک جہانگیر ترین اور میرا شکریہ ادا نہیں کیا ۔

مزیدخبریں