اب باری ہے ان جرنیلوں کے احتساب کی جو ریاست سے اپنی سنگین غداری کا اعتراف محفلوں اور آف دی ریکارڈ گفتگو میں ایسے کرتے ہیں کہ جیسے آئین سے غداری نہیں بلکہ انہوں نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر آزاد کرانے کی ایک عاجزانہ کو شش کی تھی جو کسی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔ جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اپنے جرائم کو اپنے پالتو سیاست دانوں اور صحافیوں کے ذریعے کارنامے بنا کر پیش کر رہے ہیں- یہ وہ ق لیگی سیاستدان اور دیہاڑی دار صحافی ہیں جو جنرل باجوہ کی پاکستان سے غداری کو عمران خان پر احسان سے تشبیہ دے رہے ہیں، موجودہ سیاسی و معاشی بحران کی وجوہات سے متعلق تجزیوں میں کہیں بھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی سیاسی انجینئرنگ کا ذکر نہیں کیا جاتا، جب تک ان دو جرنیلوں کا 2017 کی سیاسی انجینئرنگ،2018 کی انتخابی دھاندلی اور اسکے بعد پارلیمنٹ اور عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے جرم میں آرٹیکل چھ کے تحت اعلانیہ ٹرائل نہیں ہو گا اسوقت تک قوم ان سیاستدانوں کو ہی ملک کے سیاسی اور معاشی بحران کا ذمے دار سمجھتی رہے گی، اس تمام عرصے میں عمران خان اور اسکے حواری جرنیلوں، سیاستدانوں، پانامہ مقدمات چلانے اور ان کی نگرانی کرنے والے منصفوں اور میڈیا کے چند ہڈی خور اینکروں اور تجزیہ کاروں کا بھی احتساب ہونا ضروری ہے جنہوں نے ملکر 2017 میں ایک حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا-
آج عمران خان جیسے “اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے لاڈلے” کو سیاسی انجینئرنگ کے خلاف بات کرتے دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی سیاسی بچہ اپنے سیاسی والدین کے سیاسی نکاح پر سوال ا±ٹھا رہا ہو، اب مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ گھٹیا کرداروں نے اس ملک کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ قوم ان کے خون سے رنگے ہاتھ دیکھنے کی بجائے آٹے کے تھیلے کے حصول کے لئے قطاروں میں کھڑی ذلیل ہو رہی ہے اور ایک بیچارہ تو بھگڈر میں مارا بھی گیا، جن مذکورہ جرنیلوں نے عوام کو اس حال تک پہنچایا ہے ان کے گھر آٹے کے تھیلے نہیں بوریوں کے گودام بھرے موجود ہیں، یہ ریٹائرڈ جرنیل انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے ”آف دی ریکارڈ گفتگو“ کے ذریعے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کس طرح کرکٹ پلے گراو¿نڈز کے ایک ”پلے بوائے“ کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے کے لئے عدلیہ اور پارلیمنٹ کے معززین کو استعمال کیا، اپنے آئینی حلف کی خلاف ورزی کا یوں سرِعام اعتراف تاریخ کے ان بے شرم سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں اور جرنلسٹوں کو ابھی تک وہ والی غیرت نہیں دلا سکا جسکے ہونے سے لوگ عوام سے سر عام معافی بھی مانگتے ہیں اور یہ لوگ اپنے سینے پر سول اور ملٹری تمغوں کی دکان سجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک معاشی طور پر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہے اور اس کے لواحقین عوام باہر قطار در قطار اس کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہیں، مگر پاکستان کو معاشی طور پر بسترِ مرگ تک پہنچانے والے بھی کیسے اپنے بستروں پر آرام کی نیند سو سکتے ہیں؟ جب تک ان لوگوں کو فوری طور پر اور سرِ عام گرفتار نہیں کیا جاتا عوام کو کیسے پتہ چلے گا کہ ان کا اصل مجرم کون ہے، مگر کیا ہماری کوئی بھی سول حکومت ایسا کر سکتی ہے؟ ایک ایسی سول حکومت جو ماضی میں بھی اپنے باوردی آرمی چیف کو سعودی حکومت و دیگر عرب ممالک سے پیسے مانگنے بھیجتی رہی اور حتیٰ کہ ایک اور آرمی چیف کو تو ان کا ملازم رکھوا دیا اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، تو ایسی حکومت کیسے کسی سابق آرمی چیف کا احتساب کر سکے گی اور وہ بھی سعودی ارب کو ناراض کیے بغیر، یہ جرنیل اپنی حکومتوں کو بائی پاس کر کے امریکہ اور عرب ممالک سے اپنے قریبی تعلقات بناتے ہیں اور اسی لئے پاکستانی قوم ان کااحتساب نہیں کر سکتی، جنرل مشرف کے معاملے میں بھی بس کاغذی کارروائی ہی ہوئی اور پھر کیا ہوا وہ سب نے دیکھا، امریکہ یا سعودی عرب کے لئے ہماری عدالتوں کے فیصلے کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ اب بھی شاید کچھ نہ ہو کیونکہ ہمارا مذہبی اور معاشی کعبہ ہو یا سیاسی وائٹ ہاو¿س کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی سیاسی حکومت کسی بھی سابق آرمی چیف کا حتمی طور پر احتساب کرے جس کے بعد یہ قوم اپنے آئین اور قانون کے مطابق داخلی و خارجی امور سے متعلق آزادانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آ جائے۔
بہت کم لوگ یہ سمجھ پاتے ہیں کہ قوم کو کسی حافظ سے زیادہ بہتر حافظے کی ضرورت ہے، پہلے بھی ہر آرمی چیف کی تبدیلی کے بعد جمہوریت بحال ہوتی رہی ہے اور پھر بے حال، ہر نئی اسٹیبلشمنٹ خود کو پرانی اسٹیبلشمنٹ سے الگ اور مختلف دکھانے کے لئے کچھ حربے استعمال کرتی ہے، ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران میں نئی اسٹیبلشمنٹ بھی بظاہر اپنے سابق جرنیلوں کا احتساب نہیں کرنا چاہتی، صرف کچھ صحافیوں کے ذریعے چند محکمانہ کاروائیوں کی خبریں لیک کی جا رہی ہیں کہ ڈیمج کنٹرو ل damage control کیا جا سکے ان باتوں پر جو ناراض لاڈلے عمران خان اب کر رہے ہیں، خود کو نیوٹرل ثابت کرنے کے چکر میں اور ادارے سے خبروں کی مسلسل ترسیل کی لالچ میں کچھ بڑے بڑے تحقیقاتی صحافی حضرات بغیر تحقیق و شواہد کے یہاں تک آ گئے ہیں کہ جنرل مشرف کو بے نظیر کے قتل اور جنرل باجوہ کو ارشد شریف کے قتل یا عمران خان پر قاتلانہ حملے میں بھی کلین چٹ دیتے نظر آتے ہیں، ان کے نزدیک ان واقعات میں تحقیقات نہ ہونا اور نہ ہونے دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، باتیں ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی پیر عملِ غائب سے کسی کو معصوم قرار دے رہا ہو، آخر کچھ دوسری چٹ پٹی ”محکمانہ خبروں“ کے لئے ایسے صحافیوں کو شاید ایسی سودے بازی کرنا پڑتی ہے، دلیل یہ ہوتے ہے کہ بغیر تحقیق کے کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا مگر پھر جب عمران خان جنرل باجوہ پر الزام لگاتا ہے اور محض تحقیق کا ہی مطالبہ کرتا ہے تو اس کے تحقیقات کے مطالبے پر بات کرنے کی بجائے پورا پروگرام اس چیز پر کر دیا جاتا ہے کہ عمران خان ماضی میں خود اسٹیبلشمنٹ کے قریب رہے ہیں اور جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کے قریب ایسے کام نہیں کر سکتے، ان بڑے تحقیقاتی صحافیوں کو اتنا کہنا نصیب نہیں ہوتا کہ عمران خان کی شکایت کے عین مطابق ایف آئی آر کاٹنا قانونی تقاضا ہے (جیسے وزیر اعظم بھٹو کیخلاف بھی کٹی تھی) اور یہ کے جنرل باجوہ و دیگر کیخلاف تحقیقات ضرور ہونی چاہئے۔
یہ نئی اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی پرانے اینٹی اسٹیبلشمنٹ صحافی اب جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے حوالے سے بھی وہی لائن لے رہے ہیں جو ادارہ چاہتا ہے یعنی ایک حد تک جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر تنقید و انکشافات کریں جو ادارے میں ان کی باقیات کوکنٹرول میں رکھنے میں مددگار ثابت ہو اور نئی اسٹیبلشمنٹ کو سوشل میڈیا پر کھو جانے والی ادارے کی عوامی ساکھ کو بحال کرنے میں مدد ملے۔ سچی بات یہ ہے کہ آئین سے غداری کے سب سے بڑے اعانت کار عمران خان خود جتنا بھی بڑا مجرم ہوں اور بے شک اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی اخلاقی جرات نہ رکھتے ہوں آج ان کا موقف اتنا غلط بھی نہیں اور اس کو اہمیت نہ دینا یا ہنس کر جھٹلا دینا یہ ہماری تجزیہ کارانہ منافقت ہو گی۔
آج ہی کی ایک تقریر میں عمران خان نے دو باتیں کہیں، ایک کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینئرنگ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا مگر انہوں نے یہ نہیں مانا کہ اس کا خود عمران خان کو فائدہ بھی پہنچا، اب اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینئرنگ سے ملک کو نقصان نہیں پہنچا، عمران خان کی یہ منافقت اپنی جگہ مگر تحقیقاتی صحافیوں کو اس منافقت کی بنا پر اپنے اصولوں کو نہیں بھولنا چاہئے جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہر بڑے قاتلانہ حملے کے بعد تحقیقات کا آغاز متاثرہ شخص کی ایف آئی آر سے ہوتا ہے، اسی طرح عمران خان نے دوسری بات یہ کی کہ آج وہ جہاں بھی ہیں اس میں جنرل باجوہ کا ہاتھ ہے، ان کی اس بات سے تو ان کے مخالفین بھی اتفاق کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ عمران خان کو تو وزیر اعظم بنایا ہی جنرل باجوہ نے تھا مگر خان صاحب اپنی روایتی سیاسی منافقت کے باعث اس بات کو بھی نہیں مانتے۔ مگر کیا جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے ریاست اور آئین کیخلاف جرائم کو اس لئے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ ان کے ڈھکے چھپے اعترافات حکمرانوں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں؟ یہ سب کچھ پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔
آخر یہ قوم کب تک اپنے لئے متعین سو پیاز اور سو جوتوں کی سزا کو بدل بدل کر سکون حاصل کرنے کی کوششیں کرتی رہے گی؟ یہ لیڈر حضرات تو سو پیاز کھانے کے بعد سو دن کے لئے اقتدار میں آ کر مزے لے لیتے ہیں اور پھر سو جوتے کھانے کو تیار ہوجاتے ہیں، مگر یہ عوام، ان بیچاروں کے لئے سو پیاز اور سو جوتوں میں تو ایسا پر تعیش وقفہ بھی نہیں ہوتا۔ اگر یہ حکومت اور نئی اسٹیبلشمنٹ ملکی حالت بدلنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو وہ آف دا ریکارڈ اپنی سیاسی بدکاریوں کا اعتراف کرنے والے جرنیلوں کو حکم دے کہ ایک ہی دفعہ ٹی وی پر آ کر بتائیں کہ اپنے لاڈلے عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے انہوں نے اپنے آئینی حلف اور اس قوم کیساتھ کب کب اور کیسے کیسے کھلواڑ کیا، آخر جنرل باجوہ اور جنرل فیض ایک پریس کانفرنس کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر ایک حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی پریس کانفرنس کر سکتا ہے اور ایک حاضر سروس آرمی چیف سیاست کر سکتا ہے تو یہ دونوں پریس کانفرنس کیوں نہیں کر سکتے؟ قانون کے تحت یہ دونوں ویسے بھی دو سال تک ملک چھوڑ نہیں سکتے، کیا ان کیخلاف کاروائی کے لئے دو سال مکمل ہونے کا انتظار کیا جائے گا؟ پاکستانی قوم ان بے شرم لوگوں کے منہ سے اعتراف گناہ اور معافی کی درخواست سننے کا حق تو رکھتی ہے؟ اگر یہ ایسا نہیں کرتے اور آف دا ریکارڈ گفتگو سے نوجوان نسل کو گمراہ کرنا جاری رکھتے ہیں تو ان کاکورٹ مارشل کیوں نہ کیا جائے؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل باجوہ کے جانے سے اور نہ ہی نواز شریف کے واپس آنے سے اس قوم کی قسمت بدلے گی، اور اس ملک کو کچھ ہوا تو ان ریٹائرڈ جرنیلوں اور ان کے اعانت کار عمران خان کے علاوہ چھوٹے بڑے میاں صاحب سب کے سب ذمے دار ہونگے، اور خدانخواستہ پچاس سال بعد پھر بعد از ریٹائرمنٹ گمنامی کا خواہشمند کوئی اور جرنیل شہدا کی قبروں پر کھڑا ہو کر بے شرمی سے یہ فرما رہا ہو گا کہ پاکستان کے دوسری بار ٹوٹنے میں بھی سیاستدانوں کا کردار تھا، اگر ایک گمنام سپاہی مر کر واقعی امر ہو جاتا ہے تو پھر ایک گمنام جرنیل ریٹائر ہو کر مر کیوں نہیں جاتا؟