ملکہ کوہسار مری میں جو ہوا وہ ہمارے اداروں کی کارکردگی کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے،این ڈی ایم اے،پی ڈی ایم اے،ریسکیو ون ون ٹو ٹو، سول ڈیفنس،مقامی انتظامیہ اس سارے معاملے اور سانحے کو روکنے یا کم کرنے کے لئے مکمل طور پر ناکام کیوں ہوئے؟ان سول اداروں کی ناکامی کے بعد ہر جگہ پاک فوج کو ہی آ کر کام کیوں کرنا پڑتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ایسے واقعات اور سانحات کے بعد اٹھتے ہیں مگر ا?ج تک ان کو مکمل ایڈریس کرنے کے بجائے وقتی اقدامات اٹھانے کے بعد مٹی ڈال دی جاتی ہے۔کسی مہذب اور درد دل رکھنے والے معاشرے میں کیا یہ ہو سکتا تھا،مجھے تو یہ سب کچھ لکھتے ہوئے شرم آ رہی ہے، میں ہمیشہ سے سیاستدانوں کے بجائے بیوروکریسی اور انتظامی افسروں کا سپورٹر ہوں مگر معاف کیجئے گا، ہماری بیوروکریسی یہاں مکمل ناکام نظرآتی ہے،انتظامیہ کس شے اور کس چڑیا کا نام ہے وہ یہاں دکھائی ہی نہیں دی،چیف سیکرٹری صاحب مری انتظامیہ کی تعریفیں کر رہے تھے اور دوسری طرف لوگ گاڑیوں میں مر رہے تھے،چیف سیکرٹری صاحب کا کیا قصور پوچھنا تو انہیں لگانے والوں سے چاہئے،چیف سیکرٹری کبھی پنجاب میں اے سی،ڈی سی،سیکرٹری رہے ہوتے تو انہیں مقامی مسائل اور ایسے سانحات کا علم اور تجربہ ہوتا مگر وہ کیا کریں جو اے سی اور ڈی سی نے بتا دیا وہ انہوں نے مان لیا۔سفارشی اور جونیئر افسران جب بڑے شہروں میں لگیں گے تو ایسا ہی ہو گا۔مجھے تو اس بات پر بھی شرم آ رہی ہے کہ لوگ گاڑیوں میں مر رہے تھے اور ہوٹلوں والوں نے کمروں کے کرائے دگنا کر دیئے،لوگوں کی گاڑیاں برف میں پھنسی تھیں اور جیپوں والے انہیں نکالنے کے لئے ہزاروں روپے مانگ رہے تھے۔پی ڈی ایم اے،پنجاب حکومت کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کام ایسے سانحات کو روکنے کے لئے اور ایسے سانحے کے بعد ریلیف کے لئے کام کرنا ہوتا ہے وہ تو یہاں نظر ہی نہیں آیا،پتہ نہیں آجکل اس کا سربراہ کون ہے؟۔راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو بھی کوئی نہیں پوچھ سکتا وہ تو اپنی مرضی کی پوسٹنگ لیتے ہیں انہیں وزیر اعلیٰ یا چیف سیکرٹری کچھ کہ ہی نہیں سکتے اور موصوف ہی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ضلعی سربراہ ہیں اور مری ان کے دائرہ اختیار میں ہے۔اب ہم تو مری کے رش اور سیاحوں کی آمدورفت کا کریڈٹ لے رہے تھے اب کس منہ سے کسی پر ذمہ داری ڈالیں جب ہم سے کچھ بن نہیں پاتا تو اسے ناگہانی قدرت آفت قرار دے کر اسکی ذمہ داری قدرت پر ڈال دی جاتی ہے۔اب تک تو ڈی سی اور اے سی مری کو فارغ ہو جانا چاہئے تھا اور کوئی تازہ دم اور محنتی افسر وہاں پہنچ جاتے۔
اب بیان بازی ہو رہی ہے کہ زندہ قومیں آسمانی اور زمینی آفات کا مقابلہ بھی یکجان ہو کر کرتی ہیں،ایسے روح فرساء مناظر پر طعن و طنز کے تیر برسانا صحت مند سوچ کی عکاسی نہیں کرتا مگر میں پوچھتا ہوں کیا ہم نے اس واقعہ کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا کہ کم از کم آئندہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے،مری میں پیش آنیوالا سانحہ انسانی دسترس سے باہر اور انتظامی لا پروائی کیساتھ سیاحوں کی بے احتیاطی کا بھی نتیجہ ہے،ملکہ کوہسار میں پانچ فٹ برفباری کی بھی اطلاع نہیں تھی مگر کیا انتظامی مشینری کا بھی کوئی کام ہوتا ہے، اس حوالے سے سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ 23ا نسان موت کا لقمہ کیوں کر بنے،کیا انہیں پیشگی اقدامات اور امدادی کارروائیوں سے بچایا نہیں جا سکتا تھا، ایک انسانی جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
سیاح رات کو برف کا نظارہ کر رہے تھے کہ شدید برفباری سے راستے بند ہو گئے اور رات کو راستے صاف کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا،جس کے باعث سیاح گاڑیوں میں پھنس گئے اور شدید سردی کی نذر ہوگئے،یہ تو تھا وہ نکتہ نظر جو حکومتی ذمہ داران کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے،اس میں کسی حد تک سچائی بھی نظرآتی ہے مگر سیاحوں کو سہولیات دینا اور حفاظتی انتظامات کرنا کس کی ذمہ داری تھی،سیاح اگر مری اور گلیات کی طرف یلغار کر رہے تھے تو گنجائش سے زیادہ سیاحوں کو روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟شدید برفانی طوفان کی پیش گوئی تھی تو سڑکوں پر حفاظتی انتظامات کیوں نہ یقینی بنائے گئے؟
ایسی حکومت جو سیاحت کو فروغ دینے کا عزم کئے ہوئے ہے اس کے دور میں اگر سیاحوں کی زندگی کا یہ حال ہو تو سیاحت کا فروغ کیونکر ممکن ہو سکے گا،اگر چہ حکومت نے سانحہ کی انکوائری کا حکم دیدیا ہے،اپوزیشن کی تنقید اگر چہ تنقید برائے تنقید ہے مگر بے جا نہیں،جب طوفانی برفباری کی اطلاع تھی اور ایک لاکھ لوگ مری اور گلیات میں داخل ہو چکے تھے تو مقامی انتظامیہ اور محکمہ سیاحت کی ٹیمیں کہاں سوئی ہوئی تھیں کہ انہوں نے ایک لاکھ افراد کی حفاظت کیلئے کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کئے تھے،گنجائش سے زائد سیاحوں کو روکا کیوں نہیں گیا،کیوں سب کو موت کی برفیلی وادی میں جانے کی کھلی اجازت دیدی گئی۔
برفانی طوفان کوئی اچنبھے کی بات نہیں دنیا کے اکثر ممالک میں یہ سرد موت موسم سرما میں دندناتی پھرتی ہے مگر انتظامیہ اور حکومتیں خود الرٹ رہتی ہیں،شہریوں کی جان کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے جاتے ہیں،حالیہ سانحہ سے بچا جا سکتا تھا یا کم از کم جانی نقصان کم سے کم کیا جا سکتا تھا۔نا گہانی آفات قوموں کی زندگی کا لازمی حصہ ہوتی ہیں مگر زندہ قومیں آفات پر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر قدرت کی امداد کا انتظار نہیں کرتیں بلکہ میدان عمل میں اتر کر فوری اس کے ما بعد اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں،حکومت اگر واقعی سیاحت کا فروغ چاہتی ہے تو اسے سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنا ہوں گی اور سب سے ضروری ہے ان کی جان کی حفاظت اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو سیاحت کا فروغ بھی بے تعبیر کا خواب ثابت ہو گا،حکومتی ذمہ داران کی صفائیاں اور اپوزیشن کا تنقیدی واویلا اس سانحہ کی شدت کو کم نہیں کر سکتا مگر ضروری حفاظتی انتظامات بروئے کار لا کر مستقبل میں ایسے حادثات کی شرح کم کر کے قوم اور سیاحوں کو تحفظ کا احساس دلایا جا سکتا ہے،ترقی یافتہ ممالک میں زمینی کے ساتھ فضائی امداد کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے لہٰذا ناگہانی صورتحال میں ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیاروں کو امدادی سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔اس واقعے میں بھی پاک فوج اور ریسکیو ون ون ٹو ٹو کام کرتی نظرآئی ہے۔
جن لوگوں کے پیارے اس سانحہ جانکاہ میں جان سے گئے ہیں ان سے تعزیت کا اظہار کرنا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے مگر ان کی اخلاقی امداد بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، زندہ قومیں ایسے سانحات کو سوہان روح نہیں بنا لیتیں بلکہ بد ترین صورتحال سے بہترین صورتحال کو ممکن بناتی ہیں، اس سانحہ میں سے جماعت کی سیاسی بقا کا وسیلہ بنی۔ خواجہ آصف عوام کے ہاں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے سستی بیان بازی کی بجائے اپنی منفی سیاست پر نظرثانی کریں۔ لیگی رہنما خواجہ آصف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مری سانحے پر منفی بیان بازی پست سیاست اور موقع پرستی کی بدترین مثال ہے۔ قیمتی جانوں کے ضیاع پر پوری قوم سوگوار ہے۔