اللہ پاک میرے ملک پر رحم فرمائے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ، کوئی نہ کوئی سانحہ سننے، دیکھنے کو ملتا ہے۔کیسا افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے کہ سیر و سیاحت کی غرض سے گھروں سے نکلے معصوم شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ کالم لکھ رہی ہوں تو مرنے والوں کی تعداد 23 تک جا پہنچی ہے۔ دعا ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ نہ ہو۔ اللہ کرے کہ برف میں پھنسے اور دھنسے شہری خیر وعافیت سے اپنے گھروں اور خاندانوں میں واپس لوٹیں۔ آمین۔ اس حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ مری میں قیامت ٹوٹ پڑی اور ہمارے ہاں بھانت بھانت کی بولیاں اور بیان بازی سننے کو مل رہی ہے۔ ابھی تک کسی ذمہ دار کا تعین بھی نہیں ہو سکا۔ حکومتی اراکین اس حادثے کی ذمہ داری معمول سے بڑھ کر ہونے والی برف بازی پر ڈال رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ عوام الناس کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، جو اس موسم میں اپنے گھروں میں ٹک کر بیٹھنے کے بجائے سیر وسیاحت کی غرض سے تفریحی مقامات پر جا نکلے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسے " قدرتی آفت " قرار دیا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں اس واقعے کو حکومت کی مجرمانہ غفلت اور نالائقی کا نام دے رہی ہیں۔ سیاسی بیانات سے ہٹ کر، غیر جانبدار تجزیہ کاروں اور ماہرین کی گفتگو سنیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ حادثہ بدانتظامی اور بے تدبیری کا نتیجہ ہے۔
جہاں تک عام شہریوں کا تعلق ہے تو انہیں اس معاملے میں مورد الزام ٹھہرانا قابل جواز نہیں۔سارا سال معاشی اور سماجی مسائل سے نبرد آزما شہری اگر اپنی فرصت اور فراغت کے ایام کسی تفریحی مقام پر گزارنے کی خاطر گھروں سے نکلتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ گنجائش سے زیادہ گاڑیوں اور شہر یوں کو مری، گلیات یا دیگر تفریحی مقامات تک جانے سے روکے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ایک لاکھ، ساٹھ ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ یقینا یہ گاڑیاں چند منٹوں میں تو وہاں تک نہیں پہنچی ہونگی۔ بلکہ مختلف راستوں، چیک پوسٹوں اور ٹول پلازوں کو عبور کرتی ہوئی آگے بڑھی ہو نگی۔ ٹریفک کی صورتحال کا جائزہ لینا او ر اسکے بہاؤ کی انتظام کاری کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری تھی۔ عام شہریوں کو کیا معلوم کہ جس مقام پر وہ جا رہے ہیں وہاں پہلے سے کتنی گاڑیاں اور افراد موجود ہیں۔ متعلقہ ادارے اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ مری میں گاڑیوں کی تعداد کس قدر بڑھ چکی ہے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہددری کا چند دن پرانا ایک ٹویٹ بھی تیزی سے زیر گردش ہے۔ اس ٹویٹ میں ان کا کہنا ہے کہ " مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں۔ ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں۔ سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔۔"۔ یعنی حکومتی عہدیداران اور ذمہ داران مری میں گاڑیوں کی بڑھتی تعداد سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس کے باوجود اگر مزید گاڑیوں کو داخلی راستوں پر نہیں روکا گیا تو اس میں عام شہریوں کا بھلا کیا قصور ہے؟
بالکل اسی طرح مری میں ہونے والے سانحے کو " قدرتی آفت" کا نام دینا بھی درست بات نہیں۔ جدید زمانہ سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔دور حاضر کے ماہرین کے مطابق زیادہ تر آفات "قدرتی " (natural) کے بجائے" انسانوں کی پیدا کردہ(man-made) " ہوتی ہیں۔ اس نظریے کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ آج کل ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ آفات کی پیشن گوئی کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر محکمہ موسمیات کی وجہ سے کئی روز قبل معلوم ہو جاتا ہے کہ بارش برسنے والی ہیں۔ یا برف باری ہونے والی ہے۔ یا کوئی طوفان آنے والا ہے۔ یا موسم خشک رہے گا۔ یا لو چلنے والی ہے۔اس پیشن گوئی کے بعد انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اچھی انتظام کاری کا اہتمام کرے۔ بارشوں کی وجہ سے سیلاب کا امکان ہے تو دریاؤں وغیرہ کے کنارے واقع بستیوں سے شہریوں کے انخلاء کا انتظام کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج کی دنیا میں سیلاب سے آنے والی تباہی(خاص طور پر انسانی جانوں کے زیاں کو) کو" قدرتی آفت" نہیں سمجھا جاتا۔ اسی طرح قحط کو بھی "انسانوں کو پیدا کردہ آفت" (man-made calamity) کہا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پانی اور خوراک کی قلت راتوں رات جنم نہیں لیتی۔ کئی مہینے، ہفتے اور دن لگتے ہیں۔کئی دن کی بھوک، پیاس کے بعد انسان بیمار ہونے اور مرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا قحط کے اثرات کو بھی اچھی انتظام کاری کے زریعے روکا جا سکتا ہے۔ اگر لوگ بھوک پیاس سے مرنے لگیں تو اس کا الزام "قدرت" کے بجائے ارباب اختیار پر ڈالیں۔ یہی تھیوری مری سانحے پر عائد ہوتی ہے۔ بروقت انتظام کاری کے ذریعے اس حادثے اور اموات کو روکا جا سکتا تھا۔
ہمارے ہاں موسمیات کا محکمہ کافی متحرک رہتا ہے۔ مری میں ہونے والی برف بازی کے بارے میں بھی محکمہ موسمیات کئی دن پہلے پیشن گوئی کر چکا تھا۔ برف کے طوفان کے بارے میں بھی الرٹ جاری ہو چکا تھا۔ یہ اطلاعات متعلقہ محکموں تک بھی بھجوا ئی گئیں۔ لازم تھا کہ متعلقہ ادارے برف ہٹانے اور راستے صاٖف کرنے کا اہتمام کرتے۔ افسران ضروری مشینری سمیت متعلقہ سڑکوں میں موجود رہتے۔یہ بھی ضروری تھا کہ گاڑیوں کی ایک خاص تعداد کے داخلے کے بعد مزید گاڑیوں کو مری میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا۔ ہمارے ہاں ہر ہر کام کیلئے ادارے موجود ہیں۔ خراب موسم کے نتیجے میں بننے والی صورتحال پر قابو پانے کیلئے بھی درجنوں ادارے موجود ہیں۔ قدرتی آفات کی انتظام کاری کے لئے قومی سطح پر باقاعدہ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے۔ پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی موجود ہیں۔ یہ ادارے بھاری بھرکم بجٹ اور انفراسٹرکچر کے حامل ہیں۔ اسی طرح ہائی وے ڈیپارٹمنٹس، ٹریفک پولیس ڈیپارٹمنٹ، کنٹونمنٹ بورڈز، ریسکیو 1122 اور دیگر ادارے قائم ہیں۔ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر بھی انہی کاموں کے نگران ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے بعد ان اداروں نے ذمہ داری اور تحرک کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ اب سنتے ہیں کہ حکومت نے انکوائری کی ہدایت جاری کی ہے تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ ا یسی انکوائریوں کے انجام سے ہم سب آگاہ ہیں۔
اس سارے قضیے کا ایک سماجی اور انسانی پہلو بھی ہے۔ برف میں پھنسے اور دھنسے شہریوں کی امداد کے حوالے سے مقامی لوگوں کے متضا د رویے دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف تو یہ دیکھا گیا کہ مری کے عوام نے آفت کا شکار شہریوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا، ان کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دئیے۔ ان کی ہر طرح کی امداد اور دل جوئی کی۔ جبکہ یہ افسوس ناک اطلاعات بھی آئیں کہ کچھ مقامی لوگ بے نیازی اور بے حسی کی تصویر بنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے۔ یا گاڑی کو دھکا لگانے۔ پناہ دینے۔ پانی خوراک کا بندوبست کرنے کا بھی بھاری معاوضہ وصولتے رہے۔ یہی رویہ مقامی ہوٹلوں نے اختیار کیا۔ آفت زدہ شہریوں کی بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل مالکان نے راتوں رات کمروں کے کرائے اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کئی کئی گنا بڑھا دیں۔ ایسے ظالمانہ رویے پر آدمی کیا تبصرہ کرے۔ بس دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ آفت میں پھنسے شہریوں پر رحم فرمائے۔ آمین۔