چھ کروڑ سال قبل ایک عظیم الجثہ سیارچہ زمین کے ساتھ ٹکرایا جس کی لگ بھگ ایک ارب نیوکلیئر بموں کی دھماکہ خیز توانائی نے پورے آسمان کو راکھ، دھول اور بخارات بن کر اڑ جانے والی چٹانوں سے ڈھانپ دیا، جو بتدریج کرہ ارض پر گرتا رہا۔ اس توانائی سے کرہ ارض پر موجود ہر قسم کے جانور اور پودے ایک ساتھ مر گئے، صرف زیر سمندر ننھے امیبا، جنہیں فورام بھی کہا جاتا ہے، نے تولید کا عمل جاری رکھا، کیلشیم اور زیر سمندر پائے جانے والے دیگر معدنیات سے مضبوط شیل بنائے۔ یہ فورام مرنے کے بعد بکھر کر سمندر کی تہہ کا حصہ بن گئے، انہوں نے فوسل شدہ شیل کی صورت میں کرہ ارض کی قدیم تاریخ کے ایک معمولی حصے کو زندہ رکھا۔ ان شیلز کا سائنس دانوں نے کئی عشرے مطالعہ کیا، اس سے انہیں قدیم کرہ ارض کے سمندری درجہ حرارت، کاربن کے تناسب اور مختلف معدنیات کی ساخت کے بارے میں اہم معلومات ملیں۔ سائنس جرنل میں شائع ایک نئی سٹڈی میں محققین نے فورام کے ہزاروں سمپلز کے کیمیائی عناصر کا جائزہ لیا، کرہ ارض کے ماحولیات کا ایک مفصل ریکارڈ تیار کیا، اور یہ انکشاف کیا کہ موجودہ موسمیاتی صورت حال کس قدر تشویش ناک ہے۔
نئی سٹڈی گہرے سمندروں میں عشروں سے جاری کھدائیوں کا نتیجہ ہے، جس کی تفصیلات سینوزوک دور سے شروع ہوتی ہے، جس کا آغاز چھ کروڑ 60لاکھ سال قبل ڈائناسور کی موت سے شروع ہوا جو کہ آج کے تاریخی دور تک پھیلا ہے جس میں انسانی عمل دخل موسم کو تبدیل کر رہا ہے۔ سٹڈی کے نتائج بتاتے ہیں کیسے کرہ ارض میں موسمیاتی تبدیلی کا عمل چار مختلف حالتوں سے گزرا، انہیں وارم ہاؤس، ہاٹ ہاؤس، کول ہاؤس اور آئس ہاؤس کا نام دیا گیا ہے؛ جو زمین کے محور، گرین ہاؤس گیسز کی سطح اور قطبین کی برفانی تہوں میں تبدیلیوں کا نتیجہ تھے۔
سٹڈی کا زگ زیگ چارٹ ایک فکر انگیز اور پریشان کن انتہا کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ محققین کے مطابق انسانی عمل دخل کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ کی موجودہ رفتار اس قدرتی موسمیاتی اتار چڑھاؤ سے زیادہ ہے جو سینوزوک دور کے بعد دیکھنے میں آیا، جس میں زمین آئس ہاؤس کے مرحلے سے نکل کر بتدریج ہاٹ ہاؤس کی جانب آئی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر آف ارتھ اور پلانٹری سائنسز جیمز زاکوس جو سٹڈی کے معاون مصنف بھی ہیں، نے اپنے بیان میں کہا ”ہم قدرتی موسمیاتی تغیرات کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی عمل دخل کے نتیجہ میں موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی تغیر سے کہیں وسیع ہوں گی“۔ موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (آئی پی سی سی‘ کے اندازے کے مطابق معاملات اگر یونہی چلتے رہے تو 2300ء میں گلوبل درجہ حرارت اس سطح تک پہنچ جائے گا جو کہ کرہ ارض نے گزشتہ پانچ کروڑ سال میں بھی نہیں دیکھا۔ آئی پی سی سی اقوام متحدہ کا ایک گروپ ہے جو کہ کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔
نئے دور کا موسمیاتی نقشہ تیار کرنے کے لیے سٹڈی کے مصنفین نے گہرے سمندروں کی تہوں سے ملنے فورام شیلز کی فوسل کا جائزہ لیا جو کہ ٹیوب جیسی شکل کی لمبی چٹانوں پر مشتمل تھے، جس پر رسوبی مادے اور جراثیموں کی تہیں چڑھی تھیں۔ انہیں گزشتہ چند عشروں کے دوران تمام سمندروں کی تہوں سے ڈرلنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ فورامز خوردبینی جاندار ہیں جن کے قدیم ترین رشتہ دار لگ بھگ ایک ارب سال قبل سمندر
میں ظاہر ہوئے؛ سمندروں کی گہری تہوں کی کھدائی کے نتیجے میں سائنسدانوں کو فورامز کے قدیم ترین نمونے ملے۔ مختلف فورام شیلز میں کاربن اور آکسیجن کے آئیسوٹوپس کے تناسب نے سائنسدانوں کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔ جیسے کہ آکسیجن کے آئیسو ٹوپ آکسیجن 18 اور آکسیجن 16 بتاتے ہیں کہ فورام جس وقت اپنے شیل بنا رہے تھے، ان کے گرد موجود پانی کس قدر گرم تھا، تناسب کے زیادہ ہونے کا مطلب پانی کا ٹھنڈا ہونا ہے۔ کاربن 13 اور کاربن 12 کے درمیان تناسب بتاتا ہے کہ جرثوموں کے کھانے کے لیے کتنی زیادہ نامیاتی کاربن موجود ہوتی تھی؛ زیادہ تناسب کا تعلق ماحول میں زیادہ گرین ہاؤس گیسز سے ہے۔
چونکہ سٹڈی کا موسمیاتی ریکارڈ ایک ناقابل یقین طویل ترین دور کا احاطہ کرتا ہے، محققین نے کرہ ارض کے موسم پر فلکیاتی اثرات پر بھی غور کیا، جیسے کہ زمین کیسے محور تبدیل کرتے ہوئے بتدریج سورج کی جانب جھک رہی ہے، اور مختلف وقتوں میں کرہ ارض کے مختلف حصوں پر دھوپ کے زیادہ مقدار میں پہنچنے کے کیا اثرات مرتب ہوئے، اس عمل کو میلانکووچ سائیکلز کے نام بھی جانا جاتا ہے۔ جب محققین نے محور کے اعداد و شمار کو آئیسوٹوپک موسمیاتی اعداد و شمار سے ملا کر جائزہ لیا تو دیکھا کہ محوری تغیرات عالمی موسمیاتی تبدیلیوں پر انتہائی معمولی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ موسم کی مختلف حالتوں کے مابین واضح تبدیلی صرف گرین ہاؤس گیس کی سطحوں میں بڑے پیمانے پر تغیر کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈائناسور کے ناپید ہونے کے ایک کروڑ سال بعد کرہ ارض وارم ہاؤس کی حالت سے ہاٹ ہاؤس کی حالت میں داخل ہوا۔ اسے پالیوسین آئیوسین حرارتی حد کہا جاتا ہے جس میں درجہ حرارت میں 29ڈگری فارن ہائٹ سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا۔ زاکوس کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ماحول میں بڑے پیمانے پر کاربن کے اخراج سے رونما ہوئی، اسے شمالی اوقیانوس کے علاقے میں وسیع پیمانے پر آتش فشاؤں کے پھٹنے کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگلے دو کروڑ سال تک ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ غائب رہی، بحیرہ منجمد جنوبی میں برف کی تہیں بننا شروع ہوئی اور کرہ ارض کول ہاؤس کے مرحلے میں داخل ہو گیا، جس میں سطح زمین کا اوسط درجہ حرارت جدید معیار سے 7فارن ہائٹ اوپر تھا۔ لگ بھگ تیس لاکھ سال قبل زمین آئس ہاؤس کے مرحلے میں داخل ہوئی، جس کی وجہ زمین کے شمالی حصے میں برف کی تہوں کا بڑھنا گھٹنا تھا۔
آج انسانی گرین ہاؤس سے گیس کا اخراج جس تیزی سے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، کروڑوں سال کے دوران ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ محققین کے مطابق اس اضافے کی رفتار زمینی محور میں تبدیلی جیسے قدرتی تغیرات سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر موجودہ گرین ہاؤس اخراج کا تسلسل جاری رہتا ہے تو آب و ہوا تیزی سے اس سطح تک پہنچ سکتی ہے جو کہ پالیوسین آئیوسین زیادہ سے زیادہ حرارتی حد میں نہ دیکھی گئی تھی۔ پروفیسر زاکوس کے مطابق اب آئس ہاؤس سے ہاٹ ہاؤس کی تبدیلی میں کروڑوں سال نہیں لگیں گے، بلکہ یہ کام سیکڑوں سال میں ہو گا۔
سٹڈی کے مصنف اور جرمنی کی بریمن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ماحولیاتی سائنسز ٹامس ویسٹرہولڈ کہتے ہیں ”آج ہم بہتر طور پر جانتے ہیں کہ کرہ ارض کب گرم یا سرد تھا، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سے عوامل ان تبدیلیوں کی وجہ بنے۔ 6 کروڑ 60 لاکھ سال سے تین لاکھ 40 لاکھ قبل کا زمانہ خاص دلچسپی کا حامل ہے جس میں کرہ ارض آج کی نسبت انتہائی گرم تھا، اور موجودہ انسانی عمل دخل مستقبل میں اسی قسم کی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے“۔