دارالحکومت کے ساتھ واقع قدرتی خوبصورتی سے مالامال ملکہِ کوہسار مری اپنی نوعیت کی پنجاب کی واحد تفریح گا ہ ہے۔انگریز دورمیں قیامِ عمل میں آنے والی ملکہِ کوہسار مری کو سو سال سے زائدکا عرصہ گزرنے کے باوجودآج بھی عوام کے دلوں پر کوہساروں کی ملکہ کے سحر انگیز موسم کا راج ہے۔لیکن حالیہ برف باری میں رونما ہونے والے دلخراش سانحے نے مری کے لیے خوف کا بگل بجا دیا ہے اور اس بگل میں ملکہِ کوہسار مری کے باسی،عوامی لیڈر،اور حکمرانِ وقت برابر کے شریک ہیں۔وہ برفانی موسم جسے دیکھتے ہی منہ سے سبحان اللہ نکلتا ہے اب استغفار پڑھا جا رہا ہے۔اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا نقصان ناقابلِ تلافی ہے۔کیسے امداد کا انتظار کرتے ٹھنڈ میں بے بسی سے ایک دوسرے کو تکتے تکتے جانیں دی ہوں گی۔یہ تو وہ لوگ تھے جو دنیا سے چلے گئے انکے دل کے حال انھیں کے ساتھ ساتھ دفن ہو جائیں گے،جو زندہ ہیں اُن ہزاروں لوگوں نے پیدل سفر کیا ہو گا،بھوک اور پیاس دیکھی ہو گی،تفریح کے چکر میں جان بچانا مشکل ہو گیا ہو گاوہ لوگ اپنی تکلیف اپنا دُکھ کس سے بیان کریں۔ذرا سی برف پڑنے پر مہنگے داموں چین فروخت کرنے والے کہاں گئے؟افسوس آج تک مری کی انتظامیہ، سول سوسائٹی اورحکومت نے ان مافیاز سے سیاحوں کو بچانے کے لئے کوئی انتظامات نہیں کیے۔جدید ترین موسمیات کا سسٹم رکھنے،سوشل میڈیا پر برفانی طوفان کی لمحہ بہ لمحہ دی جانے والی وارننگ کے باوجود مری کے ادارے اور انتظامیہ اتنی غفلت کیسے برت سکتے ہیں۔انسانی جانوں کو لے کر ایسی لا پروائی تو خواب میں بھی نہیں سوچی جا سکتی۔ٹول پلازہ اور مری کے تمام انٹری پوائنٹس کیا پہلے نہیں بند کیے جا سکتے تھے؟کیا عوام کو پہلے نہیں روکا جا سکتا تھا؟انتظامیہ کی ایسی خاموشی کو اگر مجرمانہ غفلت سمجھا جائے توشاید غلط نا ہو گا۔ایک سیاحتی مقام جہاں سال کے زیادہ تر مہینے سیاحوں کے تل دھرنے تک کی جگہ نہیں ہوتی وہاں کی انتظامیہ کیا اس قدر غافل ہونے کا رسک لے سکتی ہے؟پیشگی انتظامات نا کرنے والے تمام ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے، جن کی معمولی غفلت کے باعث نا صرف قیمتی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ پورا ملک صدمے سے دوچار ہوا۔سابقہ حکومتیں ملکہِ کوہسار پر خصوصی توجہ دیا کرتی تھی، زائد تعداد کو ٹول پلازہ سے داخلے کی اجازت ہی نہیں ملتی تھی،لیکن بدقسمتی سے اس بار انسانی جانوں سے کھیلا گیااور انجام وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔معصوم جانوں کی بے بسی کی عکاسی کرتے دل سوز مناظر پوری قوم کو سوگوار کر گئے مگر افسوس ملکہِ کوہسار مری کی کسی بھی تاجر تنظیم،ہوٹل انڈسٹری کے نمائندے،سماجی کارکن وکسی بھی تنظیم کی جانب سے حکومتِ وقت کو زائد گاڑیوں کے داخلے کو روکنے کی درخواست نہ کی گئی۔شاید کاروبار کی ترقی انسانی جانوں سے افضل سمجھی گئی ہو۔پورا ملک اس وقت انتظار میں ہے کہ وزیراعظم پاکستان جو کہ خود مری کے راستے میں بنی گالہ کے مقام پر رہائش پذیر ہیں اور معصوم جانوں کے زیاں پر کافی دکھی بھی ہیں اس وقت مری جانے والے سیاحوں کے لیے ایک جامع اور بہترین پالیسی مرتب کرائیں۔مری کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک مکمل اور محفوظ ایڈوائزری کی اشد ضرورت ہے ورنہ یہ قوم حادثات کو سہتے سہتے ملکہِ کوہسار مری سے منہ موڑ لیں گے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کہ سیاحوں کا المیہ تو اچانک ہے لیکن پہاڑوں پر لاکھوں کی تعداد میں موجود اہلیان مری کے بارے میں انتظامیہ اور حکومت کی کیا پلاننگ تھی؟۔وقت بار بار دستک نہیں دیتا یہ بھی ضروری نہیں تھاکہ اتنی جانیں قربان کر کے اقدامات اٹھائے جاتے اور یہ بھی قابلِ برداشت نہیں ہو سکتا کہ اسے سانحہ سمجھ کر بھول جائیں۔زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں حکومت ِوقت کو چاہیے مری آنے والے سیاحوں کے لیے پارکنگ کے انتظامات کو بہتر بنائے،انگریز دور سے چلنے والی پانی کی سپلائی کو ضرورتِ وقت کے مطابق بہتر اور جدید کیا جائے،سیاحوں کے لیے ہوٹلوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا یکساں نفاذ کیا جائے،راستوں کو جام ہونے سے بچانے کے لیے ٹریفک کو ون وے پر سختی سے عمل کرایا جائے۔حکومتِ وقت کی اس سے بڑی نا اہلی کیا ہو گی کہ حکومتی وزیر خود فرما رہے ہیں کہ ہوٹلوں کے ریٹ زیادہ ہو گئے ہیں،اشیائے خورونوش سیاحوں کے لیے مہنگی ہو گئی ہیں۔کیا حکومت کو اُس وقت نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟پنجاب کے واحد سیاحتی مقام پر قیامت برپا ہے سول حکومت کی نا اہلی کے باعث فوج کی پیدل پانچ پلاٹون،ایف سی اور رینجر طلب کی گئی اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی افواجِ پاکستان نے مری میں مزیدانسانی جانوں کو نقصان سے بچا لیا۔مگر مری سے منتخب ایم این اے صداقت عباسی اس وقت کہیں نظر نہیں آ رہے مانا کہ مری میں سرمایہ دار با اثر ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں سرمایہ دار کو اپنے سرمائے سے محبت ہوتی ہے لیکن قوانین کی تیاری،شہر کا امن و امان اور سہولیات کی فراہمی حکومتوں کا کام ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے مری میں حکومت یرغمال بنی ہوئی ہے،سرمایہ دار اپنے اثاثے بنا رہے ہیں جبکہ مری جسے جنت کہا جاتا ہے اسکا منظر یکسر بدلتا جا رہا ہے۔حکومت کبوتر کی طرح آنکھ بند رکھے قوم کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔اب امید ہے پھر سے کمیٹیاں بنیں گی،فائلیں تیار ہوں گی، کچھ تبادلے ہونگے اور وقت سب کے زخموں پر مر ہم رکھ دے گا۔یہ وقت متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا ہے لیکن ہمیں چاہیے دعائے مغفرت کریں اُن زندہ مرحومین کیلئے بھی جومری میں مرنے والوں کا کفن نوچ رہے ہیں جو برفانی طوفان میں پھنسے لوگوں اور مرنے والوں کی روحوں میں عقل بانٹنے نکلے ہیں۔