کتنے مودب ہیں یہ کبوتر

کتنے مودب ہیں یہ کبوتر

کتنے مودب ہیں یہ کبوتر 
کعبے کے اوپر سے جاتے نہیں ہیں 
کس کو ادب یہ سکھاتے نہیں ہیں 
کتنے مودب ہیں یہ کبوتر 
اللہ اکبر اللہ اکبر
کرونا کے دنوں میں جب پوری امت مسلمہ پر خانہ کعبہ داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تو اس وقت ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی تھی جس میں کبوتروں کا ایک غول خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہا تھا یقین مانیں ان کی قسمت پر بہت رشک آیا اور ایک بار تو خواہش پیدا ہوئی کہ کتنے مقدس اور خوش قسمت ہیں یہ کبوتر جو پروانوں کی طرح اپنی شمع الفت کے گرد آزادانہ طواف کر رہے ہیں، کتنی تعظیم ہے ان کے اندر، اتنا تقدس تو شائد ہم انسان بھی نہ کر پائیں۔ کس بات کا غرور کہ اشرف المخلوقات ہوکر مسلمان ہوکر ہمارے لیے اس مقدس گھر کے دروازے بند کردئیے گئے تھے لیکن یہ خوش قسمت کبوتر جنہیں نہ کوویڈ کا ڈر تھا نہ ان پر کوئی پابندی لگا سکا۔ کیا پتہ ہم واقعی اس قابل نہ ہوں کیا پتہ ہمارا نامہ اعمال سیاہ ہوچکا ہو کیا پتہ وہ اللہ چاہتا ہی نہ ہو ہمارے گنہ گار قدم اس پاک زمین کو چھوئیں کیا پتہ یہ کبوتر ہم سے زیادہ مودب ہوں کیا پتہ ہم نے کس کس طرح اپنے رب کی نافرمانی اور ناشکری کی جس کی پاداش میں ہم پر یہ سختیاں لگیں اور ابھی تک قائم ہیں۔ ابھی عمرے کی اجازت ملی تو ہے مگر یقین مانیں وہ پہلے والی بات نہیں رہی۔ شائد ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہے کہ ہم خدا ناراض کر بیٹھے۔ 
مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے اطراف بہت سے حج اور عمرہ کرنے والے کبوتروں کی ایک بڑی تعداد کو گند یا جو کا دانہ ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلکہ کوئی حج عمرہ کرنے آرہا ہوتو لوگ خاص طور پر اس کے لیے پیسے دیتے ہیں کہ ہماری طرف سے بھی ان کبوتروں کو دانہ ڈال دینا۔
کیا خوبصورت منظر ہوتا ہے جب کبوتروں کے جھنڈ لوگوں کا استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
حرم کے اطراف میں رہنے والے یہ کبوتر خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ احرام کی حالت میں یا اس کے بغیر بھی کسی طور ان کا شکار جائز نہیں ہے۔ ان کے شکار یا قتل کرنے کی صورت میں فدیہ یا دم واجب آتا ہے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے ان کی! 
کیا آپ جانتے ہیں کہ ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور پھر مہینے کے درمیان ایک مرتبہ پھر مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔ 
ان کبوتروں کو نقصان پہنچانے کی حرمت کی یہ وجہ منقول ہے کہ یہ اُن کبوتروں کی نسل سے ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دروازے پر گھونسلے بنا ڈالے تھے جبکہ ایک اور روایت کے مطابق حرم کے کبوتروں کا تعلق اُن ابابیل پرندوں سے ہے جو سمندر کی جانب سے آئے تھے اور انہوں نے اپنے پنجوں میں پتھر اور کنکر تھام رکھے تھے تاکہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادے سے آنے والے یمن کے بادشاہ ابرہہ الاشرم کو باز رکھا جائے۔

اس حوالے سے ایک تیسری روایت میں مشہور طوفان کی کہانی بھی ملتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام نے اس پرندے کو زمین اور اس کی خشکی کو دریافت کرنے کے واسطے استعمال کیا تھا۔ اس طرح یہ پرندہ دنیا بھر میں امن کا عنوان بن گیا۔
منفرد خوبیاں رکھنے والے یہ کبوتر 55 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ سکتے ہیں، یہ کبوتر سر اٹھائے بغیر پانی پینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک مشترکہ کبوتر ایک دن میں 2500 سے زیادہ بیج لیتا ہے۔ کبوتر کھلے جنگل کے علاقوں، شہری علاقوں میں رہتے ہیں اور کچھ پرجاتیوں نے گھنے جنگلات میں رہائش اختیار کی ہے۔ وہ باقاعدگی سے بجلی کی تاروں اور درختوں کی شاخوں میں نظر آتے ہیں۔
کبوتروں کو ان کی یادداشت اور ذہانت کی وجہ سے پیغام رسانی کا ذریعہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔
یہ کبوتر کبھی قاصد کا روپ دھار لیتے ہیں کبھی رہنما بن جاتے ہیں ان کی تقدیس ان کی پاکیزگی ان کا ادب ان کی رفتار ان کا احترام ان کی معاشرتی خوبیاں انہیں پرندوں کا ولی بنا دیتی ہیں اور اس پر ہجرت جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے ایمان کی سب سے بڑی آزمائش رہی ہے یہ اس کو بھی خوشی خوشی بہت تدبر سے جھیلتے ہیں۔
سردی کے مہینوں میں کبوتر کی کچھ نسلیں جنوب میں ہجرت کرتی ہیں اور گرمی میں مغرب کی طرف۔ ان کا سفر جاری ساری رہتا ہے اپنی معصومیت کہ وجہ سے یہ بے ضرر پرندہ امن کی عالمی پہچان بن چکا ہے۔ مسافر اور کیرئر کبوتر میں فرق ہوتا ہے۔ کیریئر کبوتر تاریخی لحاظ سے اہم ہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے لوگوں کے لیے پیفام رسانی کا فریضہ انجام دیا۔ 
کبوتر کی انکساری اور توکل بھی ایک ایسی صفت ہے جو کسی دوسرے پرندے میں نہیں پائی جاتی
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کاش میں اس مادی دنیا کے جھمیلوں سے نمٹنے لے لیے کبوتر جیسی صفات اپنا لوں۔ میں ان حرم پاک کے کبوتروں کے ذریعے اپنے اللہ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہوں کہ مالک ہم بھی تیرے بندے ہیں تجھ تک پہنچنے کے لئے اتنی رکاوٹیں نہیں جھیل سکتے۔ 
عمرہ کرنا حج کی طرح مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ حج تو ویسے ہی عام مسلمانوں کا خواب بن چکا ہے۔
کیوں نہ مل کر اللہ سے دعا مانگیں 
اے مالک ہماری خطاؤں کو درگز کردے ہم تیرے نام لیوا ہیں ہمیں زمان و مکان کی قید سے آزادی اور تیرے حرم کا طواف کرنے کی اجازت چاہیے۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو مالک ہم تیرے محبوب کی امت ہیں ہم سب کو خانہ کعبہ کا طواف عمرہ حج نصیب ہو یہ زیارت مومن کے ایمان کا حصہ ہے اس کو اتنا نا ممکن مت بنایو کہ ہم جیسے لوگ دیدار کی حسرت لیے ہوئے جہاں سے گزر جائیں سوچتی ہوں حرم پاک کے کبوتروں کے ہاتھ یہ پیغام دنیا بھر کے حکمرانوں بالخصوص سعودی حکمرانوں تک پہنچا دوں کیا پتہ ان معصوموں کی عرضی ہمارے حق میں قبول ہو جائے۔
اے کبوتر در خدا پہ جاکر پیام دینا 
تڑپ رہے ہیں تیرے یہ سارے غلام کہنا 
ہماری آنکھوں کو ہو میسر نظارہ اس کا
ملے طواف حرم کا موقع دوام کہنا