تبدیلی سرکار کا آخری سال، جو کچھ کرنا ہے کرلے پھر لاد چلے گا بنجارہ۔ اگست 2023ء میں عام انتخابات شیڈول، اگلے سال کے آغاز ہی سے الیکشن کی گہما گہمی بلکہ مارا ماری شروع ہوجائے گی۔”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“ فارن فنڈنگ کے کیس میں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ نے بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق عہدیداروں سمیت غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ کمیشن نے منصفانہ فیصلہ کیا تو بہت سی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ حضرت جی کے اقتدار کا سورج غروب، حکومت ختم، پارلیمنٹ بچانے کے لیے نئے نام سے پارٹی رجسٹرڈ کرانا ہوگی لیکن الیکشن کمیشن کے آرٹیکل 6 اور اس کی ذیلی دفعات کے تحت تو فنڈز بھی منجمد ہوسکتے ہیں گویا اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا۔ فضول بحث کہ دوسری جماعتوں کے فنڈز بھی منظر عام پر لائے جائیں پہلے ایک کا فیصلہ تو ہوچکے ان سے بعد میں نمٹا جائے گا(فرسٹ کم فرسٹ)۔ اندرونی بے چینی اور ٹوٹتے اعصابی نظام کا اظہار باتوں سے ہونے لگا ہے۔ اپنے وفاقی وزیر ”خوشحال چودھری“ نے جانے کس زعم میں کہہ دیا کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں سرخرو ہو کر نکلی،فیصلہ آیا نہیں سرخروئی کہاں سے آگئی ہاں ”دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے“ سارے ”سرخ رو“ ہیں جبکہ عوام بے چارے ”زرد رو“ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ مزاحیہ آئٹم سہی لیکن ایک صاحب نے فلاں وزیر کے حوالے سے ٹوئٹ کیا کہ عوام حالیہ بارشوں میں پکوڑے اور سموسے منوں کے حساب سے کھا گئے ہیں جو معیشت کے استحکام کی علامت ہے۔ ایسے میں عالی جاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے تین سال معاشی کامیابی کی کہانیاں ہیں یاد آیا لاہور کے رتن سینما میں فلم دیکھ کر نوجوان باہر نکلے تو آخری شو میں ٹکٹ لینے کے لیے لائن میں کھڑے ایک لاہوریے نے باہر آنے والے سے پوچھا۔ ”بھاجی فلم کیسی ہے۔“ نوجوان جل بھن کر بولا ”پیسے کھوہ وچ سٹ دیو۔ فلم کی اے کہانی کہانی اے، اشٹوری تے ہے ای نہیں۔“کہانیاں جا بجا بکھری پڑی ہیں قرضے، مہنگائی، افراط زر، عوام کی بدحالی، کہانیاں سمیٹنے میں وقت لگے گا۔ 2022ء کی بات کیجیے نئے سال کی توقعات، خدشات، امکانات، سچ پوچھیے تو عوام کی توقعات مایوسیوں میں بدل گئیں۔ خدشات بڑھ گئے۔ امکانات صفر، عوام کی چیخ و پکار رات دن ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے سرکار والا تبار کے کانوں تک پہنچتی ہوگی کان بند ہیں آنکھیں بند ہیں سارے کارندوں کا اصرار کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے۔ ”خوشحال چودھری“ اللہ نظر بد سے بچائے دن بدن صحت مند ہو رہے ہیں۔ ببانگ دہل فرمایا کہ اشیاء سستی ہو رہی ہیں۔ نومبر دسمبر میں قیمتیں کم ہوئیں جنوری میں مزید کم ہوں گی۔ مہنگائی کہاں ہے؟ سو فیصد درست، مہنگائی بازاروں میں ہے جہاں جانا نہیں ہوتا۔ مہنگائی غریبوں کے لیے ہے۔ غریب کہاں ہیں؟ ملک بھر میں 90 فیصد غریب ہیں ملک کہاں ہے؟ اس کا تو کوئی جواب نہیں ”جو کچھ بھی ہو خدا کی قسم لاجواب ہو“ عوام اپنا دکھڑا سنانے کے لیے ایک دو چینلوں پر آتے ہیں باقی تمام چینلوں پر وزیر، مشیر اور ترجمان قابض، اتنے مستعد کہ اتوار کی چھٹی بھی نہیں کرتے، بتائیے کون سچا کون جھوٹا، گاؤں دیہات میں کولہو کے بیل کو دیکھا ہے؟ آنکھوں پر موٹے ”کھوپے“ چڑھائے 24 گھنٹے ایک ہی مدار پر گھومتا رہتا ہے مالک کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تیل نکالا جاسکے۔ اب گاؤں دیہات کی تمیز نہیں شہروں میں بھی عوام کا تیل نکالا جا رہا ہے۔ ترجمان اور وزراء عالی جاہ کے حکم کے مطابق اپوزیشن کے ”جعلی بیانیے“کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ”اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ“ پچھلے دنوں وزارت خزانہ کے ترجمان کراچی پریس کلب آئے تھے میڈیا کے سامنے کس جرأت و بے باکی سے کہا جب سب کچھ سستا ہے تو لوگ شور کیوں مچا رہے ہیں۔ میں دسمبر میں پیٹرول 4 روپے سستا کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر پیٹرول ہر ماہ 4 روپے مہنگا ہوگا (چوروں، ڈاکوؤں کے دور میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا) پھر فرمایا عوام کے استعمال کی اشیا کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں“۔ ساری ہوائی باتیں ایسی تھیں جیسے خواب کی باتیں، منی بل میں کیا ہے (بابر اعوان مصر ہیں کہ اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود 10 جنوری کو بل منظور کرالیں گے) غور کریں اور بتائیں کہ مہنگائی کیسے نہیں بڑھے گی۔ پیکنگ میں فروخت مسالوں پر 7 فیصد ٹیکس، ڈبل روٹی، مٹھائی، بیکری مصنوعات پر 17 فیصد ٹیکس، ساشے میں فروخت ہونے والی اشیا پر 17 فیصد ٹیکس، ادویات کے خام مال پر 17 فیصد ٹیکس، پرچون فروشوں پر 17 فیصد ٹیکس، نومولود بچوں کا دودھ بنانے والی فیکٹریوں پر 17 فیصد ٹیکس (نومولود بچوں پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے تو آبادی کنٹرول کرنے میں آسانی ہو گی۔ عوام باز نہ آئے تو ٹیکس وصولیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا)۔ منی بل منظور ہو گیا تو تمام اشیا پر ٹیکس بڑھ جائیں گے۔ بد قسمتی سے یہ تمام اشیا عام آدمی کے استعمال میں ہیں کیا ان کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی؟ قیمتیں برقرار رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ فیکٹریوں، کارخانوں کے مالکان اور دیگر مصنوعات تیار کرنے والوں سے حلف لیا جائے کہ وہ ٹیکس ادا کریں گے۔ قیمتیں نہیں بڑھائیں گے ”ایں خیال است و محال است و جنوں“ دریں حالات فیصلہ کون کرے گا کہ 2022ء میں بہتری آئے گی یا ابتری۔ پھر تھرڈ امپائر کو زحمت دی جائے دو ہی صورتیں ہیں الیکشن کمیشن کوئی دھانسو فیصلہ کر دے یا تھرڈ امپائر انگلی اٹھا کر آؤٹ قرار دے دے۔ شاید اسی لیے کہا گیا کہ آئندہ تین ماہ انتہائی اہم ہیں۔ اس دوران بلاول بھٹو نے لانگ مارچ کیلئے 27 فروری اور پی ڈی ایم نے 23 مارچ کی تاریخیں دے دی ہیں۔ بلاول نے تو جذباتی تقریر کرتے ہوئے واضح اعلان کر دیا کہ حکومت جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے امیدوار فائنل کر لیں کیا توقعات ہیں پنجاب فتح کر لیں گے؟ نیک تمناؤں کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ ادھر ن لیگ والے بھی اپنے ”ٹارزن“ کی واپسی کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔ احسن اقبال، سردار ایاز صادق اور شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی جونہی ستاروں کی چالیں بدلیں نواز شریف عوام میں موجود ہونگے۔ عسکری ترجمان نے نواز شریف سے ڈیل کی تردید کی لیکن یار لوگ اب تک مصر ہیں کہ ”میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے، سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے۔“ کہیں کچھ ہو رہا ہے نومبر دور ہے لیکن پلاننگ آئندہ دو تین ماہ میں ہو گی۔ آبزرویشن پر کوئی ریزرویشن ہوئی تو ریزرو کھلاڑی ہی کام آئے گا۔ کھلاڑی بھی ایسا جو میچ بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ منی بل منظور ہو گیا تو اگست ستمبر تک مہنگائی ختم کرنے کی یقین دہانیوں پر کون یقین کرے گا۔ جبکہ منی بل کی منظوری سے پہلے ہی 24 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور مہنگائی کی شرح 20 فیصد ہو گئی ہے۔ اپوزیشن کا ”جعلی بیانیہ“ ہو یا عوام کا ”حقیقی بیانیہ“ حقائق کو کیسے جھٹلایا جائے۔ عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں کہ 2022ء میں بہتری آئے گی یا ابتری، اندازہ کر لیجیے آغاز میں یہ حال ہے تو انجام خدا جانے۔