اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر اہم سوال اٹھا دیے۔ کہا عمران خان اور انکی پارٹی نے نیب ترمیمی بل پر ووٹنگ سے اجتناب کیا۔ کیا ووٹنگ سے اجتناب کرنے والے کا عدالت میں حق دعوی بنتا ہے؟
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا کوئی رکن اسمبلی پارلیمان کو خالی چھوڑ سکتا ہے؟ استعفی منظور نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اسمبلی رکنیت برقرار ہے ۔ رکن اسمبلی حلقے کی عوام کا نمائندہ اور انکے اعتماد کا امین ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست ہے؟کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھر عدالت آجانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنا نہیں؟ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اور اہمیت کا کیس ہے؟عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے تین ججز نے کرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کیخلاف چیخ و پکار کر رہی ہے؟ نیب ترامیم کون سے بنیادی حقوق سے متصادم ہے نشاندہی نہیں کی گئی، عمران خان کے وکیل اسلامی دفعات اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر کرتے رہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیا صرف اس بنیاد پر عوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں تھا؟ ہر لیڈر اپنے اقدامات کو درست کہنے کیلئے آئین کا سہارا لیتا ہے، پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی ضروری نہیں سیاسی حکمت عملی کا کوئی قانونی جواز بھی ہو۔
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سے بے وقوفی لگتی ہے، پارلیمانی کارروئی کا بائیکاٹ دنیا بھر میں ہوتا ہے جبکہ برصغیر میں تو بائیکاٹ کی لمبی تاریخ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت صرف بنیادی حقوق اور آئینی حدود پار کرنے کے نکات کا جائزہ لے رہی ہے۔ درخواست گزار نے نیب ترامیم عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر چیلنج کیں۔ عمران خان کے کنڈکٹ پر سوال تب اٹھتا اگر نیب ترامیم سے ان کو کوئی ذاتی فائدہ ہوتا، بظاہر درخواست گزار کا نیب ترامیم سے کوئی ذاتی مفاد منسلک نہیں لگتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا شاید عمران خان کو معلوم تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو عدالت آگئے۔ عمران خان سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر عدالت نیب قانون کالعدم قرار دے گی تو کل کوئی بھی سپریم کورٹ میں قانون سازی چیلنج کر دے گا؟ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14 فروری تک ملتوی کردیا۔