کسی بھی حکومت کو ترقی یافتہ ممالک میں حکومت اور انتظامیہ پر مشتمل دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ملکی آئین کے تحت ہمارے ہاں بھی یہ تقسیم ضروری ہے،مگر کوئی بھی حکومت ماضی میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی بلکہ تقسیم پر تیار ہی نہیں رہی جس کے باعث حکومت کا لازمی جزو مقامی حکومتیں اور بیوروکریسی یعنی انتظامیہ بے بس اور لاچار ہو چکی ہیں۔انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی مقامی حکومتوں اور سرکاری مشینری کے خود مختار اور با اختیار ہونے تک حقیقی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے نہ عوام کو ریلیف دینا ممکن ہے اور پوری دنیا میں مقامی حکومتیں کامیابی سے تعمیر ترقی کی ضامن ہیں۔
ہمارے ملک میں آزادی کے بعد اختیارات کا منبع مرکز رہا تاہم 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو با اختیار کیا گیا توآئین کے تحت صوبوں کیلئے ضروری تھا کہ وہ مقامی حکومتوں کو با اختیار کرتے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کئے جا سکیں،مگر اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے عزم اور ارادہ کے بر عکس صوبے مقامی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کو سیاسی مالی اور انتظامی خود مختاری دینے پرآمادہ دکھائی نہیں دیتے۔
عدالتی حکم پر کے پی کے جہاں تحریک انصاف دوسری ٹرم میں حکمرانی کر رہی ہے کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام کو اپنے مسائل کے فوری حل سے غرض ہے کسی سیاسی جماعت یا حکمران سے واسطہ نہیں۔تحریک انصاف کو کے پی کے میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اختیارات کی منتقلی اور مسائل کا حل اور وہ بھی فوری چاہتے ہیں۔کے پی کے میں ہزیمت کے بعد عدالتی حکم پر ہی پنجاب میں بھی بلدیاتی معرکہ ہونے کو جا رہا ہے،نتیجہ یہاں بھی کے پی کے سے مختلف دکھائی نہیں دیتا۔ اسی بناء پر وزیراعظم نے خود اس میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے اور عوامی رابطہ مہم کا شیڈول ترتیب دیا جا رہا ہے،دیکھتے ہیں اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کو بنیاد بنا کر مقامی حکومتوں کے فوری الیکشن سے معذرت کر لی ہے،اصل صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور منتخب ارکان مالی اور انتظامی اختیارات چھوڑ کر بے وقعت ہونا اور اثر ورسوخ کھونا نہیں چاہتے، یہی وجہ ہے کہ بیورو کریسی یعنی انتظامیہ خاص طور پر ضلعی انتظامیہ کو ہر دور میںعضو معطل بنا کر رکھا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ عوامی مسائل دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔موجودہ دور میں ہی جن معاملات میں حکومت نے مقامی انتظامیہ کو بروئے کار لا کر نتائج حاصل کرنا چاہے وہاں بہترین کارکردگی سامنے آئی۔لیکن منتخب ارکان اسمبلی ترقیاتی فنڈز مقامی حکومتوں اور انتظامی اختیارات ضلعی انتظامیہ کو دینا سیاسی موت گردانتے ہیں جس کی وجہ سے یہ دونوں ادارے عضو معطل ہیں جس کے باعث عوام لاچار و بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں مقامی حکومت کا نظام بنائیں گی اور انہیں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی ذمہ داریاں بھی منتقل کریں گی اور اس کا اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے پاس ہو گا جب کہ اس کے لیے انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے پاس ہو گی۔البتہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کے بجائے صوبوں کے پاس اختیارات آجانے کے بعد سے اکثر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے اجتناب دیکھا گیا ہے۔اس میں اصل رکاوٹ طاقت رکھنے کی سوچ ہے، تاریخی طور پر ملک میں زیادہ تر اختیارات مرکز کے پاس رہے اور پھر انہیں صوبوں کو منتقل کرنے میں 60 سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ البتہ اس کے بعد اب یہی اختیارات صوبوں سے مقامی سطح پر منتقل ہونے تھے، جو بدقستی سے اب تک نہیں ہوسکے ہیں۔یہی سوچ حکومت کے دوسرے اہم حصے انتظامیہ اور انتظامیہ کے اہم ترین حصے ضلعی انتظامیہ کو مالی اور انتظامی حوالے سے با اختیار کرنے میں حائل ہے۔
صوبوں میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر یہ اختیارات منتقل کردیئے گئے تو ان کی طاقت کم پڑ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان اختیارات کو آسانی سے نیچے منتقل کرنے کو تیار ہی نہیں کیونکہ اختیارات و وسائل کی نیچے منتقلی سے اراکین اسمبلی کا اثر و رسوخ کم ہوجائے گا۔ملک میں اس وقت کسی بھی حصے میں مقامی حکومتیں موجود ہی نہیں، اس میں برسرِ اقتدار جماعتیں ہی ذمہ دار ہیں جو اقتدار میں آنے سے قبل پْرفریب وعدے اور دعوے کرتی ہیں لیکن اس کے بعد ان وعدوں سے یو ٹرن لے لیتی ہیں۔ کیونکہ وزرائے اعلیٰ اور صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات اور انہیں اختیارات دینے اور انتظامیہ کو با اختیار کرنے کو تیار ہی نہیں۔ان کے مطابق آئین پر عمل درآمد کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ پھر ترقیاتی فنڈز اراکین اسمبلی کو نہیں بلکہ مقامی حکومتوں کو دینے پڑیں گے۔ جس سے ان کے اثر و رسوخ میں کمی آجائے گی اور پھر ان کی اہمیت کم ہوجائے گی جو یہ نہیں چاہتے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بیورو کریسی حکومت یا حکمرانوں کی ملازم نہیں ریاست کی ملازم تصور کی جاتی ہے۔وہ حلف بھی ریاست سے وفاداری کا اٹھاتے ہیں ان کو آئین 25سال کم از کم دیتا ہے خدمات کیلئے جبکہ منتخب ارکان4یا 5سال کیلئے مینڈیٹ کے کر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی سرکاری ملازم کسی وزیر گورنر یا صدر وزیر اعظم کا کوئی زبانی حکم نہیں مانتا،غیر قانونی تو بالکل بھی نہیں۔ٹریفک سارجنٹ صدر وزیر اعظم وزیر کا چالان کر دیتا ہے اور اسے تبادلہ کا خوف نہیں ہوتا۔کوئی کلرک بھی کسی وزیر کی قواعد کے منافی حکم کو ماننے سے انکار کر سکتا ہے۔مگر ہمارے ہاں ظل الٰہی طرز کے حکمران چاہتے ہیں سب کچھ ان کے ہاتھ میں رہے بس انہی کا حکم بجا لایا جائے۔مشرف نے مقامی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کو با اختیار بنانے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا،مگر یہ بات طے ہے کہ ان دونوں کو با اختیار کئے بغیر کوئی حکومت ڈیلیور کر سکے گی نہ عوامی مشکلات میں کمی آئے گی۔باقی۔۔۔جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔