کرٹانک میں مسلمان طالبہ مسکان کے مشتعل ہندوئوں کے سامنے نعرہ تکبیر کی پوری دنیا میں گونج نے مجھے سندھ دھرتی کی مائی جندو کی یاد دلادی۔ مسکان نے اپنی آواز اٹھا کر ثابت کیا کہ ظلم کے خلاف کمزور ترین آواز بھی اثر رکھتی ہے۔ جبکہ مائی جندو نے تن تنہا اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف اپنی عملی جدوجہد سے اسے ثابت بھی کر دیا۔
مائی جندو کی جدوجہد کے آگے ملک کے طاقتور ترین ادارے کے سربراہ کو بھی سیلوٹ ہے کہ حقیقت کی تہہ تک پہنچتے ہی انہوں نے انصاف کی راہ میں کسی کو رکاوٹ نہ بننے دیا اور مائی جندو کے مرکزی ملزم میجرارشد کو ریاست کے قانون کے مطابق انصاف دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وطن عزیز کے سیکورٹی اداروں پر تنقید ہماری عادت سے زیادہ فیشن بن چکی ہے لیکن نجانے ان کی خدمات کے اعتراف پر ہماری زبان اور قلم کیوں کانپتا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کو بھی سلام کہ انہوں نے مائی جندو کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچایا گو کہ انصاف کے حصول کے لیے اسے اپنی دو بیٹیوں کو بھی قربان کرنا پڑا۔
سندھ کے سکول ایجوکیشن اور لٹریسی کے محکمے سے منسلک خاتون سعدیہ نور کی سوشل میڈیا پر ’’سندھ دھرتی کی جدوجہد کی داستان مائی جندو انتقال کر گئیں‘‘ کے عنوان سے چھپنے والی تحریر نے مجھے متوجہ کر لیا۔ مجھے جستجو ہوئی کہ آخر مائی جندو کون تھیں؟
میں نے تیس سال قبل ایک واقع سے منسلک ٹنڈو بہاول کی مائی جندو کے بارے میں ریسرچ کی کچھ رہنمائی سعدیہ نور کی تحریر سے ہوئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ مائی جندو تاریخ کا دھارا موڑ دینے کی مظلوم قوت کا نام ہے۔ یہ نام ریاست کے طاقتور ترین ’’ادارے ‘‘ سے ٹکرا کر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کی طاقت کا نام ہے۔ مائی جندو نام ہے ارادے کی مضبوطی کے لیے سب کچھ لٹا دینے کا۔یہ نام نہ عورت کا نہ مرد کا یہ نام ہے جبر ظلم اور طاقت کے زعم کو پاش پاش کر دینے کا۔اس قوت نے کسی سوشل میڈیا مہم کے بغیر تنہا اپنے ارادے کی اثر انگیزی سے وہ کر دکھایا جو یہاں عزت، طاقت اور اختیار کے بے انتہا رسوخ رکھنے والے نہ کر پائے۔فرد کی قوت کیسے اداروں کی فرعونیت سے ٹکرا سکتی ہے یہ ٹنڈو بہاول کے گاوں کی مظلوم بوڑھی عورت نے اس قوم کو سکھایا۔
ہم کس قدر بزدل ہیں اور کتنے بہادر ہیں اس کا اندازہ اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی معمولی زیادتی کے جواب میں اپنے رویے سے جانچ لیں۔اگر ظلم ، زیادتی کو آپ صبر اور اللہ کی بھیجی آزمائش مان کر چپ ہو جاتے ہیں تو معاف کیجیئے گا آپ کے اندر نہ صرف مائی جندو مر چکی ہے بلکہ آپ کا مذہب، آپ کا
روحانی ارتکاز، آپ کا دنیاوی جاہ سچ کو سچ کہنے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی صلاحیت بھی مر چکی ہے۔اپنے اندر کے بدعنوان اور منافق شخص کے زندگی کی نام نہاد بہاریں آپ کو مبارک ہوں۔ لیکن اگر آپ علم والے ہیں تو مائی جندو جیسی ان پڑھ عورت سے سیکھئے کب کیسے ایک روٹی پکانے، اپلے تھاپنے والی عورت اپنے بے وجہ مار دیے جانے والے بچوں کے وقار کے لیے اپنے حق کے لئے بھڑ جاتی ہے۔یہ عورت آپ کو سکھاتی ہے اس کے بعد اب اس سے ایک جماعت بھی زیادہ پڑھے شخص کی ذمہ داری کتنی گنا بڑھ گئی ہے اور جو جتنا زیادہ جانتا ہے وہ اتنا زیادہ جوابدہ ہے۔اس جوابدہی کے احساس کا نام ہے ما ئی جندو۔ جوابدہی کے اسی احساس کے ساتھ ہر لمحاتی اضطراب سے لڑ جائیے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی عملی شکل بن کر معاشرے کی فلاح کا اصل ماڈل سامنے لائیے۔ اپنے اندر کی مائی جندو کو جگائیے۔ فرد مر سکتا مگر سوچ اور ارادہ ایک توانائی کی صورت کائنات میں موجود رہتا ہے۔ ماء جندو بھی اب ایک توانائی کی صورت کائنات کے سفر میں ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں کون اس توانائی سے اپنے ارادوں کو نیا جنم دیتا ہے اور دوام پاتا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 5جون 1992 کو سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے دوران وہاں تعینات میجر ارشد جمیل کی سربراہی میں فوج کے ایک دستے نے دعویٰ کیا کہ فوج سے مقابلے میں نو ڈاکو مارے گئے۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ہلاک ہونے والے ’جرائم پیشہ‘ افراد انڈین خفیہ ادارے ’را‘ سے بھی روابط رکھتے تھے اور اْن سے بھاری مقدار میں جدید اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔ اس خبر کی قومی اخبارات میں اشاعت کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز دونوں ہی دریائے سندھ کے کنارے اس مقام پر پہنچے جہاں اس مقابلے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
آئی ایس پی آر کے اس وقت سندھ میں نگران بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا بتاتے ہیں کہ وہاں ڈاکوؤں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی دکھایا گیا جس کی ہم نے تصاویر بھی پریس کو جاری کیں اور وزیراعظم نے کارروائی میں شریک افسر اور ان کے دستے کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا۔ تین چار روز تک تو قومی اخبارات میں بھی اس مقابلے کی خوب پذیرائی ہوئی مگر پھر مقامی صحافیوں نے بالآخر اس کے اصل حقائق کا پردہ فاش کر دیا۔ اْس زمانے کے اخبارات کے مطابق میجر ارشد جمیل کے بعض قرابت دار دراصل مائی جندو کے خاندان کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں میجر ارشد جمیل سے ’مدد‘ مانگی۔ تحقیقات کے مطابق پانچ جون کی رات میجر ارشد اپنے 15 رکنی دستے کے ہمراہ مائی جندو کے گھر میں جا گھسے اور وہاں موجود نو افراد کو بندوق کی نوک پر اٹھا لیا۔ اِن افراد میں مائی جندو کے دو بیٹے بہادر اور منٹھار جبکہ ایک داماد حاجی اکرم بھی شامل تھے۔ پھر میجر ارشد ان کو لے کر دریائے سندھ کے کنارے پہنچا جہاں ان تمام افراد کو ڈاکو قرار دے گولیاں مار دی گئیں۔ بہرحال مقامی اخبارات میں لاشوں کی تصاویر بغیر تفصیل کے شائع ہوئی تو اْنھیں پہچان کر یہ لوگ رونے اور بین کرنے لگے۔‘
یہ حقائق پہلے مقامی پھر اردو اور انگریزی کے قومی اور بالآخر عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے تو ’سانحہ ٹنڈو بہاول‘ ایسی قومی شرمندگی کا باعث بنا جس کا اعتراف اْس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کو بھی کرنا پڑا۔ اس وقت کی عسکری و سیاسی قیادت کو ایک بار پھر سیلوٹ ہے کہ انہوں نے بغیر لگی لپٹی کے انصاف کو ترجیح دی۔ خاص طور جنرل آصف نواز کو سلام کہ وہ کوئی بھی دبائو خاطر میں نہ لائو۔ اس وقت کے اخبارات کے مطابق میجر ارشد جمیل کو فوج سے برطرف کر کے اور اْن کے دستے کے ارکان سمیت گرفتار کر لیا گیا اور ان کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع ہوا۔ ماورائے عدالت و قانون نو افراد کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر میجر ارشد جمیل کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ تقریباً چار برس تک مقدمہ مختلف ملکی عدالتوں میں روایتی تاخیر کا شکار ہوا اور مائی جندو کا خاندان انصاف کا منتظر رہا۔ اب اسے عدل کی فراہمی کی سست رفتار کہہ لیں یا نظام انصاف کی طویل محکمہ جاتی خامیاں مگر مائی جندو کے خاندان کو اپنے بے گناہ بیٹوں اور داماد سمیت نو افراد کے قاتلوں کو سزا دلوانے اور تختۂ دار تک پہنچانے کے لیے دو اور جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ ستمبر 1996 میں مائی جندو کی دو صاحبزادیوں حاکم زادی اور زیب النِسا نے اعلان کیا کہ اگر اْن کے بھائیوں اور شوہر کے قاتلوں کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہ ہوا اور مزید تاخیر کی گئی تو وہ حیدرآباد میں عدالت کی عمارت کے سامنے خود سوزی کر لیں گی۔ اسے بھی بدقسمتی کہا جائے یا نظام انصاف کی کمزوری کے مائی جندو کی بیٹیوں کو آخرِ کار 11 ستمبر 1996 کو اپنی دھمکی پر عملدرآمد کرنا ہی پڑا۔ جھلس کے شدید زخمی ہو جانے کے بعد دونوں بہنیں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔
مائی جندو کی بیٹیوں کی ہلاکت کے باوجود سزا پر عملدرآمد اس وقت تک نہیں ہو سکا جب تک سپریم کورٹ نے میجر ارشد کی سزائے موت کے خلاف اپیل اور پھر صدرِ پاکستان نے رحم کی اپیل مسترد نہیں کر دی۔آخرِکار 28 اکتوبر 1996 کو میجر ارشد کو حیدرآباد کی سنیٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ میری قارئین سے درخواست ہے اپنے اندر کی مائی جندو اور مسکان کو مرنے نہ دیں اور ظلم کے خلاف آوازیں اٹھاتے رہیں کیونکہ کمزور ترین آواز بھی اثر رکھتی ہے۔
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے (03004741474) کے واٹس ایپ پر دے سکتے ہیں۔
مائی جندو اور مسکان…
08:06 AM, 10 Feb, 2022