شام کی جیلوں سے آزاد ہونے والے قیدیوں کی خوفناک داستانیں

شام کی جیلوں سے آزاد ہونے والے قیدیوں کی خوفناک داستانیں

دمشق: شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور باغیوں کے دارالحکومت دمشق سمیت دیگر علاقوں پر قابض ہونے کے بعد، جیلوں سے آزاد ہونے والے ہزاروں قیدیوں نے اپنی تکالیف اور اذیتوں کی کہانیاں بیان کی ہیں، جو حکومت کے وحشیانہ سلوک کی گواہی دیتی ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، آزاد ہونے والے قیدیوں نے بتایا کہ انہیں جیلوں میں محض ایک نمبر کے طور پر جانا جاتا تھا، ان کا کوئی نام نہیں تھا اور ان کے خاندان والے سمجھتے رہے کہ وہ مر چکے ہیں۔ ایک قیدی نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں کہا کہ "مجھے بشار حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں ڈالا، اور سالوں تک میرے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔"

رپورٹ کے مطابق، جیل سے آزاد ہونے والے بعض افراد نے انکشاف کیا کہ انہیں آج کے دن پھانسی دی جانی تھی، مگر ان کی آزادی نے ان کی زندگیوں کا رُخ بدل دیا۔ ایک شخص نے بتایا، "ہمیں 30 منٹ پہلے پھانسی دی جانی تھی، مگر اب ہم آزاد ہیں اور دمشق کے دل میں کھڑے ہیں۔" علی حسن نامی ایک قیدی کی کہانی نے سب کو ہلا دیا۔ 39 سال بعد آزادی پانے والے علی حسن 1986 میں شامی فوج کے ہاتھوں شمالی لبنان میں گرفتار ہوئے تھے۔ وہ اس وقت 18 سال کے تھے اور یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ علی حسن کی گرفتاری کے بعد سے ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا، اور 39 سال بعد انہیں جیل سے آزاد کیا گیا۔

اسی دوران، حکام نے سوشل میڈیا پر اپیل کی ہے کہ وہ جیلوں میں کام کرنے والے اہلکاروں سے تعاون کریں تاکہ باغی فوج کے رہنماؤں کو جیلوں میں موجود انڈرگراؤنڈ سیلز کے الیکٹرانک کوڈز فراہم کیے جا سکیں۔ اس طرح، تقریباً لاکھوں قیدیوں کو آزادی مل سکتی ہے، جو ابھی تک جیلوں میں قید ہیں۔

مصنف کے بارے میں