اِدھر اُدھر تانک جھانک یا مداخلت کے بجائے فرائض تک محدود رہاجائے تو بدمزگی اور شکوے شکایات جنم نہ لیں اور عزت وتکریم بھی ملے دائرہ کار سے تجاوز کرنے پر اُنگلیاں اُٹھتیں اور تنقید کے نشتر چلتے ہیں اچھی بات یہ ہے کہ اپنے پیش روکی طرح موجودہ عسکری قیادت نے بھی سیاسی سرگرمیوں سے الگ رہنے کے بعد اپنی تمام تر توجہ پیشہ ورانہ امور پردینے کاپختہ تہیہ کیا ہے جس پر کچھ سیاستدان محض اِس وجہ سے خفا ہیں کہ اُنھیں خدشہ ہے کہ اگرصیح معنوں میں ایسا ہی ہوتا رہاتو وہ ماضی میں تعاون سے جس طرح اقتدار حاصل کرتے رہے ہیں مستقبل میں تعاون حاصل نہ ہونے کی بناپرہمیشہ کے لیے اقتدار سے دور ہو سکتے ہیں ایساسوچنا غلط ہے سیاسی قیادت کو عوامی تائیدو حمایت حاصل کرنے پر توجہ دینی چاہیے عسکری قیادت کو مداخلت کے جواز فراہم کرنے اورپھرعسکری قیادت کا مداخلت کے جواز تلاش کرناغلط روایت ہے جو ملک کی جمہوری اقدارکمزور کرنے کا باعث ہے ایسی حرکتوں سے ملک دولخت ہوا سب اپنی حدودو قیود کو پیشِ نظر رکھ کر فرائض سرانجام دیں تونہ صرف جمہوری قدریں مضبوط ہوں گی بلکہ دفاعی نوعیت کے مسائل کا تدارک ہو سکتا ہے۔
باربارسیاسی تنازعات کا حصہ بننے سے ملک کے نیک نام اور احترام کے لائق اِدارے کی ساکھ میں کمی آئی یہ سیاسی تنازعات میں حصہ لینے کا نتیجہ ہے کہ اِس وقت ملک کی تمام جماعتیں کسی نہ کسی حوالے سے شکوہ کناں ہیں اورماضی میں عسکری قیادت کو ہدفِ تنقید بناتی رہی ہیں یہ لائق تحسین یا قابلِ تعریف روش نہیں اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ عسکری قیادت نے خود کوفرائض تک محدود رکھنے کا عہددہرایاہے جس سے قوی امکان ہے کہ عوام کی عسکری اِدارے سے نہ صرف قربت بحال ہو جائے گی بلکہ فوج کوماضی کی طرح حاصل عزت و احترام بھی دوبارہ دیکھنے کو ملے گا سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ دیگر اِداروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے سیاسی مسائل خود حل کرے سیاسی لوگ بات چیت سے اُلجھے معاملات سلجھاتے ہیں مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت اکثر اوقات جمہوری قدروں کے مطابق ظرف دکھانے سے قاصر رہی ہے آج بھی حکومت و اپوزیشن میں سلسلہ جنبانی منقطع ہے جس کی تعریف و توصیف نہیں کی جا سکتی کیونکہ ایسے حالات ہی دیگر قوتوں کو دخل اندازی کا جواز فراہم کرتے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگرایک دوسرے کے لیے بات چیت کے دروازے کُھلے رکھے جائیں۔
نئی فوجی قیادت کے لیے اِس وقت سب اچھا نہیں بلکہ کئی ایک چیلنج درپیش ہیں اِس وقت سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ اِدارے کی عوام ا لناس میں عزت وساکھ بحال کی جائے اِس کے لیے زبانی طورپر یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ اب اُس کا سیاسی تنازعات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ عملی طور پربھی ایسا یقینی بنانا ہوگا کہ ماضی کی طرح حکومتیں بنانے اور توڑنے،انتخابی عمل کو کسی ایک فریق کے حق میں ہموار کرنے، ذرائع ابلاغ کوقابو کرنے سمیت طاقت دکھانے یا مراعات و نوازشات کے عمل کاخاتمہ کرناہو گا اگر ایسا نہیں کیا جاتا اور محض زبانی کلامی پارسائی ظاہر کرنے پر توجہ دی جاتی ہے تو عوامی اعتماد بحال نہیں ہوسکتا اور شبہات کی فضا میں کمی نہیں آ سکتی ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ اب ساٹھ یا ستر کی دہائی نہیں کہ جو سرکاری ٹی وی بتائے گا لوگ من و عن یقین کر لیں گے بلکہ معلومات کے ذرائع بہت وسیع ہوچکے ہیں سوشل میڈیا الگ رائے عامہ پر اثر اندازہونے کا ذریعہ ہے جسے قابو کرنا ناممکنات میں ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ تین سالہ مدت ایسے عزت و وقار سے گزاری جائے کہ سبکدوشی کے بعد بھی لوگ اچھے نام سے یاد کریں ایسے نتائج اِدارے کے وقار اور آئین کی بالادستی پر سمجھوتہ نہ کرنے سے ہی ممکن ہیں۔
جب آئین میں حکومتی و عسکری قیادت کے دائرہ کار کاواضح تعین ہے تو کسی کو بھی تجاوزیا مداخلت کا کوئی حق نہیں جو ایسے کسی فعل کا مرتکب ہو اُس کے محاسبے کاباقاعدہ طریقہ کاربھی موجود ہے تجاوز اور مداخلت کے مرتکب کسی کوآج تک کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکا مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہو سکتا بہتریہی ہے طاقتور بننے اور نیچا دکھانے کا کھیل دوبارہ شروع نہ ہوکیونکہ فرد کے خلاف تادیبی کارروائی سے اِدارے کی بدنامی کے ساتھ استعداد بھی متاثر ہو سکتی ہے پہلے ہی صدی کا تہائی حصہ محاذآرائی اور کھینچا تانی کی نذر کر چکے جس کی وجہ سے نہ صرف اِداروں کی
ساکھ مجروح ہوئی بلکہ ملک آئے روز تجربات کی بناپرمعاشی دلدل میں دھنس چکا ہے مزید ایسی کسی غلطی کی گنجائش نہیں حکومت کواپناکام کرنے دیا جائے اور عسکری قیادت اپنے فرائض پرتوجہ مرکوز کرے یہ خوشی کی بات ہے کہ نئی عسکری قیادت اپنے پیش رو کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے خودکو پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رہنے کی دوٹوک بات کررہی ہے اب سیاسی قیادت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کی خاطر مدد حاصل کرنے کے لیے تانک جھانک سے گریز کرے اورسیاسی فیصلے کرنے کی صلاحیت پیداکرے نیزسیاسی اختلافِ رائے کو دشمنی کے قالب میں ڈھالنے سے گریز کیاجائے۔
جس طرح ملک کے لیے سویلین حکومت ناگزیر اور اہم ہے اُسی طرح وطنِ عزیز کے دفاع میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے بہادر جوانوں کا کلیدی کردار ہے سب کو اختیارات اور دائرہ کار کی پاسداری کرنے چاہیے جب ایک فریق دوسرے فریق کو دبانے اور خود حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے تو جوابی ردِ عمل بھی آتا اور کرپشن کی راہ ہموار ہوتی ہے بہتریہی ہے ایسی صورتحال نہ پیداہونے دی جائے جب آئین میں سویلین حکومت اور دیگر اِداروں کے اختیارات و فرائض کی وضاحت ہے تو پھر دبانے اور حاوی ہونے کی سرگرمیاں ناقابلِ فہم ہیں اور ایسا کرنے سے اِداروں کونیک نامی نہیں ملتی اگر سیاسی قیادت بیساکھیاں تلاش کرنے اور اِداروں کی قیادت طاقتور بننے کے جنون سے نکل کر فرائض کی بجاآوری کو یقینی بنائیں تو نہ صرف سیاسی مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ دہشت گردی جیسے ناسور،سیاسی عدمِ استحکام اور معاشی مسائل پر قابو پانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ماضی کی غلطیاں دُہرانا دانشمندی نہیں ایسی غلطیوں کی سزا سقوطِ ڈھاکہ جیسے المناک سانحے کی صورت میں بھگت چکے یہ چرکا محب الوطنوں کو مرتے دم تک نہیں بھولے گا ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنا، امن و امان کے مسائل حل اور اندرونی شورشوں پر قابو پانا ہے تو فرائض تک محدود رہنے کا باعزت راستہ اختیار کرنا ہوگاہروقت طعنے دینے یا چڑانے میں ملک و قوم کا فائدہ نہیں نقصان ہے اختیارات سے تجاوز کا نتیجہ ہے کہ75برس میں ابھی تک کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز معاشی پالیسی نہیں بنا سکے آج بھی ملک کاانحصار قرضوں پر ہے ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ممالک ترقی کی منازل طے گئے جبکہ ہمارے ملک میں آج بھی ا نظام کے حوالے سے یہ بحث جاری ہے کہ پارلیمانی ہونا چاہیے یا صدارتی، لاحاصل بحث میں الجھنا وقت کے زیاں کے مترادف ہے کرپشن کی بڑی وجہ بھی اختیارات سے تجاوز کرناہے جس پر فوری نظرثانی اور دائرہ کارکی پاسداری ہی ملک وقوم کے لیے سود مند ہے فرائض تک محدود رہنے سے عزت و تکریم ہوتی ہے سیاسی قیادت اپنا کام کرے اور عسکری اِدارہ اپنے فرائض پرتوجہ دے۔