سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے غیر انسانی اور سفاکانہ قتل کے بعد ملک بھر میں سامنے آئے والا ردعمل اگرچہ حوصلہ افزاء ہے لیکن نیا نہیں۔ ماضی میں بھی جب اس طرح کے واقعات سامنے آئے تو ایسا ہی ردعمل بھی آیا تھا۔ خاص طور پر سات برس پہلے آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں پر دہشت گردوں کے حملے اور سینکڑوں شہادتوں کے واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سانحے کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان بچوں کے والدین اور عزیزوں پر آج بھی کیا گزر رہی ہو گی۔ اس سانحے کی مذمت میں پوری قوم یک زبان ہو گئی تھی۔ موجودہ وزیر اعظم، عمران خان نے اسلام آباد میں اپنا چار ماہ طویل دھرنا بھی ختم کر دیا تھا۔ اس سانحے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں اور سکیورٹی اداروں نے ایک نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی۔ اس پلان کو سامنے رکھ کر دیکھیے کہ گزشتہ سات سالوں میں ان بیس نکات پر کتنا عمل ہوا۔ اگر گزشتہ حکومت کے چار برس نکال دیں تو بھی تین سال سے موجودہ حکومت، اقتدار میں ہے۔ ان تین سالوں میں بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس پلان کو دیکھنے اور اسکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ پلان کی کون سی شق پر کتنا عمل ہوا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کی شق 5 میں کہا گیا تھا کہ ’’فرقہ واریت، عدم برداشت، نفرت اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے لٹریچر، اخبارات اور جرائد کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی‘‘۔ شق 6 کہتی ہے ’’دہشت گردوں کے مالی وسائل بند کر دئیے جائیں گے‘‘۔ سیکشن 7 کہتا ہے کہ ’’اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ کالعدم تنظیمیں دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں‘‘۔ شق 8 کہتی ہے کہ ’’ایک اینٹی ٹیریسٹس فورس منظم کی جائے گی جس کا واحد مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا‘‘۔ شق 9 کہتی ہے’’مذہب کی بنیاد پر ظلم و تشدد کے خلاف موثر اقدامات کئے جائیں گے‘‘۔ شق 10کہتی ہے کہ ’ ’تمام دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولرائزیشن ہو گی‘‘۔ شق 11 قرار دیتی ہے ’’کسی دہشت گرد فرد یا دہشت گرد تنظیم کو پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہیرو بنا کر پیش نہیں کیا جائے گا‘‘۔ شق 15 کہتی ہے کہ ’’پنجاب میں انتہا پسندی اور لشکر سازی کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شق 18 کہتی ہے کہ ’’فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی‘‘۔ اور آخری یعنی شق 20 میں کہا گیا ہے کہ ’’کریمنل جسٹس سسٹم کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے گا اور اصلاحات کی جائیں گی‘‘۔
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ان شقوں کو کتنی سنجیدگی سے لیا گیا ؟ ان پر کتنا عمل ہوا یا سرے سے نہیں ہوا؟ لیکن اتنی بات تو پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر نیشنل ایکشن پلان کی ایک ایک شق پر عمل درآمد ہو چکا ہوتا اور گزشتہ یا موجودہ حکومت نے بھر پور عزم اور قوت کے ساتھ انتہاپسندی اور دہشت گردی کو کچلنے کی کوشش کی ہوتی تو صورتحال وہ نہ ہوتی جس کا مظاہرہ کچھ دن پہلے سیالکوٹ میں ہوا۔ اسے حکومتوں کی مجبوری کہہ لیں یا سیاسی مصلحت پسندی، وہ بڑے بڑے اعلان کرنے کے باوجود بھرپور ایکشن کی جرات نہیں کرتیں اور جب وقت آ ن پڑے تو وقتی طور پر معاملے کو ٹال دینے کے لئے یا تو انتہا پسندوں سے معاہدے کر لیتی ہیں یا پھر عملا ان کے سامنے ہتھیار ڈاال کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ اس کا مظاہرہ ہم نے گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں بھی دیکھا اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اگر ریاست اسی طرح، انتہا پسندوں کے سامنے بے بس رہے گی، اسی طرح وقتی سہولت کے لئے ہتھیار ڈالتی رہے گی اور اسی طرح عمل کے وقت پسپائی سے کام لیتی رہے گی تو ملک کو تشدد، عدم برداشت، عدم تحمل اور مذہب کے نام پر قابل مذمت اقدامات کو کیسے روک پائے گی۔
2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے چارسال بعد 2018 میں فرقہ واریت، مذہب کے نام پر قتل اور انتہا پسندی کے خلاف ایک اور انتہائی قابل قدر دستاویز سامنے آئی جسے ’’پیغام پاکستان ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ جنوری 2018 میں اس وقت کے صدر، جناب ممنون حسین مرحوم نے ایک خصوصی تقریب میں یہ دستاویز باضابطہ طور پر جاری کی۔ ’’پیغام پاکستان ‘‘ دراصل اٹھارہ سو سے زائد جید علمائے کرام کا ایک فتویٰ ہے جس میں متفقہ طور پر دہشت گردی، خونریزی، اور خود کش حملوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔’’ پیغام پاکستان‘‘کو تمام سیکورٹی اداروں کی بھر پور تائید و حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن اس عظیم دستاویز کے الفاظ اور روح کی روشنی میں کیا عملی اقدامات کئے گئے، اس کا کسی کو علم نہیں۔
ہر سانحے کے بعد، دودھ کے ابال کی طرح سامنے آنے والا ردعمل آج بھی ماضی سے مختلف نہیں۔ معاشرے کے ہر طبقے نے سیالکوٹ کے انتہائی بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ ہر انسان نے اس کا دکھ محسوس کیا ہے۔ علمائے کرام نے اسلام آباد جا کر، سری لنکن ہائی کمشنر سے تعزیت کا اظہار بھی کیا اور دو ٹوک الفاظ میں اس واقعے کی مذمت کی۔ پرنٹ، الیکڑانک اور سوشل میڈیا نے بھی اس واقعہ کو درندگی قرار دیا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی نے سری لنکن شہری کے لواحقین کے لئے ایک لاکھ ڈالراور اسکی تنخواہ جاری رکھنے کا اعلان کر کے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
یہ خوش آئند پہلو ہیں۔ لیکن کیا حکومت، ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں، علمائے کرام، میڈیا اور سول سوسائٹی کا یہ رد عمل (جو پہلے کئی بار سامنے آچکا ہے) کسی واضح ریاستی اقدام میں ڈھل سکے گا کیا ریاست اس طرح کی انتہا پسندی کو فروغ دینے اور اسے اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ قرار دینے ان سرچشموں کو بند کر سکے گی جو آج بھی ہر طرح کی گرفت سے آزاد ہیں اور جب چاہیں ریاست کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب تک اس سوال کا جواب ٹھوس عملی شکل میں سامنے نہیں آتا، اس وقت ہمارا معاشرہ اس طرح کی انتہا پسندی سے پاک نہیں ہو سکتا۔ اگر’’ نیشنل ایکشن پلان ‘‘ اور ’’پیغام پاکستان‘‘ محض کاغذوں اور حوالوں تک ہی محدود رہیں گے تو انتہا پسندی، عدم برداشت اور تشدد و خونریزی کو روکنا ایک خواب ہی رہے گا۔ حکومت کو عملی اقدامات کے ذریعے بتانا پڑے گا کہ یہ ملک گیر ردعمل اور خود وزیر اعظم اور دیگر ذمہ داروں کے بیانات محض ’’دودھ کا ابال‘‘ نہیں تھے۔