نانبائی ایسوسی ایشن کے صدر آفتاب گل کہہ رہے تھے کہ وہ اس اتوار سے سادہ روٹی بارہ روپے اور نان اٹھارہ روپوں میں بیچیں گے، میں نے ان سے کہا ، کچھ سوچیں، ایک غریب آدمی اگر گھر کے پانچ ، سات افراد کے لئے دس روٹیاں بھی لے کر جائے تو اسے ایک سو بیس روپے ادا کرنے ہوں گے جبکہ سادہ روٹی تو پہلے ہی چھوٹی سی ہوتی ہے ، غریب آدمی جو محنت مزدور ی کرتا ہے، اپنی کیلوریز خرچ کرتا ہے تو انہیں پورا کرنے کے لئے وہ روٹیاں بھی دو نہیں بلکہ تین چار کھاجاتا ہے، وہ کہاں سے اتنے پیسے لائے گا۔ تندور والوں نے ترنت جواب دیا کہ میں ان سے غریب آدمی کی بات کر رہا ہوں تو وہ کون سے امیر آدمی ہیں، تندور کون سے فیکٹریاں ہیں کہ جہاں سے وہ لاکھوں کماتے ہیں، وہ خود غریب ہیں، محنت کش ہیں ۔ وہ مجھے بتانے لگے کہ پچھلے تین، چار ماہ میں آٹے، فائن آٹے، میدے، لیبر اور شاپنگ بیگز سمیت ہر شے کی قیمت میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔ آٹے کی وہ بوری جو حکومت بڑا احسا ن کر کے گیارہ سو روپے میں بیس کلو کی دیتی ہے اس میں انتہائی ناقص آٹا ہے اور اس کی روٹی لگانے کے لئے اس میں فائن آٹا مکس کرنا پڑتا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ میدے کی بوری کی قیمت میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ مل والوں نے اس کا وزن بھی چوراسی کلو سے کم کر کے اسی کلو کر دیا ہے۔ وہ بتانے لگے کہ عزیز بھٹی ٹاون سمیت پورے شہر میں چلے جائیں، ایک ماہ سے گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوچکی ہے، اب انہیں روٹیاں لگانے کے لئے ایل پی جی کا سلنڈر لانا پڑتا ہے جو نوہزار روپے کا آ رہا ہے اور تین دن ہی چلتا ہے۔ حال یہ ہے کہ دودھ مہنگا ہونے پر انہوں نے گلوکوز ڈالنا شروع کیا ہے تو اس کی بوری کی قیمت ہی ڈبل ہو گئی ہے۔
آفتاب گل جذباتی ہورہے تھے ، سوال کر رہے تھے کہ کیا تندور والوں کے بچے ہمیشہ تندور والے ہی بنتے رہیں گے، کیا وہ اس وجہ سے سکول نہیں جائیں گے کہ ان کے باپوں کے تندور ہونے کے باوجود گھاٹے پڑ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ڈپٹی کمشنر آفس نے ایک روز قبل ہی دودھ، دہی، گوشت اور دالوں وغیرہ کے نئے نرخ جاری کئے ہیں مگر ان پر کوئی شور نہیں مچا۔ وہ روٹی مہنگی کرتے ہیں تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ کیا تندور والوں نے دودھ، دہی ، گوشت اور دالیں وغیرہ نہیں خریدنی ہوتیں۔ کئی تندور والے مجھے بتا رہے تھے کہ وہ لاکھوں روپوں کے مقروض ہوچکے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنا کاروبار بند بھی نہیں کرسکتے کہ جس روز دکان بند کی اسی روز قرض والے سر پر پہنچ جائیں گے اور کہیں کہ اب تم بھاگ رہے ہو، نکالو پیسے اور وہ پیسے کہاں سے دیں گے۔
میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ روٹی تندور والے مہنگی نہیں کرتے بلکہ روٹی کے پیچھے ایک لمبی زنجیر ہے، کڑی سے کڑی جڑی ہوئی ہے۔ روٹی اس وقت مہنگی ہوتی ہے جب آئی ایم ایف کہتا ہے کہ گیس مہنگی کرو۔ روٹی اس وقت مہنگی ہوتی ہے جب کچھ طاقتور لوگ گندم کی کاشت کے موقعے پر حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ آنکھیں بند کرلے اور پھر اس کے ساتھ ہی ڈی اے پی مہنگی ہونے لگتی ہے، ساڑھے چا ر ہزار کی بوری ساڑھے دس ہزار روپوں میں بھی نہیں ملتی، یوریا کی ساڑھے سترہ سو کی بوری اڑھائی ہزار روپوں میں بلیک ہوتی ہے مگر حکومت سوئی رہتی ہے۔ روٹی اس وقت مہنگی ہوتی ہے جب حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ کسان کو بہت سستا پانی دے رہی ہے اور وہ پچھہتر روپے ایکڑ سے آبیانہ اکٹھا ہی پانچ سو روپے ایکڑ کر دیتی ہے۔ روٹی اس وقت مہنگی ہوتی ہے جب کسان کو ساڑھے پانچ روپے یونٹ بجلی کی سہولت ختم کر دی جاتی ہے اور اس وقت بھی جب ڈیزل کی قیمت دوگنی ہوجاتی ہے۔ بظاہر ان سب کا روٹی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں مگر ان سب کا ہی تو روٹی سے بنیادی تعلق ہے۔
حکومت صرف کسان کے ہی پیج نہیں کستی بلکہ فلور ملز والوں کو کبھی سرکاری گندم کی سپلائی بند کر دیتی ہے اور کبھی کہتی ہے کہ پنڈی کی فلور ملز بھی ڈیرہ غازی خان سے گندم اٹھا کے لائیں ۔ اس طرح فلور ملز کو بھی من مانی کا موقع مل جاتا ہے وہ حکومتی نااہلی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔فلور ملز والے سرکاری ریٹ پر آٹے کے نام پر کچرا بیچتے ہیں اور غریبوں کو مجبورا کھانا پڑتا ہے مگر دوسری طرف گیارہ سو کے بیس کلو کے مقابلے میں وہ پندرہ کلو کا تھیلا ایک ہزار پچاس روپے میں متعارف کروا دیتے ہیں اور اس کا جواز یہ ہے کہ قانون سرکار کو دس او ربیس کلو کے تھیلوں کے ریٹ مقرر کرنے کا اختیار دیتا ہے سو وہ پندرہ کلو کا مہنگا آٹا مارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں اور دکاندار بھی یہی مشورے دیتے ہیں کہ یہی آٹا لے لیجئے، گیارہ سو میں بیس کلو والا آٹا تو کھانے کے قابل ہی نہیں ہے۔
روٹی اس لئے بھی مہنگی ہوتی ہے کہ ڈپٹی کمشنروں کے پاس گندم ، آٹے اور روٹی جیسی فضول چیزوں کے علاوہ بھی بہت سارے کام ہیں۔ نانبائی تو ویسے ہی غریب ہوتے ہیں، کسی امیر بندے کو کیا پڑی ہے کہ کہ وہ سارا دن جلتے ہوئے تندور پر کھڑے ہو کر روٹیاں لگائے یا لگوائے اور وہ بھی اس ملک میں جہاں بارہ میں سے آٹھ مہینے چنگی بھلی گرمی پڑتی ہے۔ سو ڈپٹی کمشنروں نے بہت سارے وزیروں، مشیروں کی مٹھی چانپی کرنی ہوتی ہے لہذا وہ کئی کئی مہینے ملاقات کے لئے وقت مانگتے نانبائیوں کو مل نہیں پاتے۔ ان کے سامنے ہزاروں بوریاں ڈی اے پی ذخیرہ ہو رہی ہوتی ہیں مگر وہ روک نہیں پاتے۔ وہ کسان کی ضروریات کو مہنگا ہوتے دیکھتے رہتے ہیں مگر ان کے منہ بند او رہاتھ بندھے رہتے ہیں۔ وہ فلور ملز مالکان کو ہر ہفتے قیمت بڑھاتے ، آٹے کے غیر قانونی تھیلے بناتے دیکھتے رہتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ روٹی مہنگی ہوجاتی ہے مگر یہاں ڈپٹی کمشنروں نے سرکار اور میڈیا کو جوا ب دینا ہوتا ہے کیونکہ مہنگی روٹی ایک بریکنگ نیوز ہے تو وہ دھڑلے سے اعلان کرتے ہیں کہ وہ تندور والوں کو منظور شدہ قیمت سے زیادہ پر روٹی نہیں بیچنے دیں گے،وہ چھاپے ماریں گے، جرمانے کریں گے، گرفتاریاں کریں گے۔ ظاہر ہے وہ کھادیں بنا کر انہیں بلیک کرنیو الوں کو تو پکڑنے سے رہے اور نہ ہی وہ فلور ملز والوں پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں سو انہیں غریب نانبائی ملتے ہیں جو انہیں گراں فروش لگتے ہیں۔
میں لاہور کے صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر سے کہتا ہوں کہ شیر بنیں شیر، جو نانبائی اس اتوار سے مہنگی روٹی بیچے اس کے پاس اپنی نیلی بتی والی گاڑیوں میں جائیں، ساتھ پولیس کے مسلح جوان لے جائیں، اس نانبائی کا تندور ہی سیل نہ کریں بلکہ اس پر ایف آئی آر دیں، ایف آئی آر دینے سے پہلے اسے سڑک پر لٹا کر چھتر بھی ماریں کہ وہ ناجائز منافع خورتندور والا مہنگی روٹی بیچ رہا ہے۔ ایک بنانا ری پبلک میں حکومت، بیوروکریسی اور پولیس کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ غریبوں اور لاوارثوں کو چھتر مارے ، امیروں اور طاقتوروں کو سلیوٹ مارے۔