قارئین کرام، سچ تو یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے گمبھیر اور اندوہناک مسا ئل پہ مسلسل لکھتے لکھتے جی اوب جا تا ہے اوردیگر کالم نو یسوں کی ما نند دِل چا ہتا ہے کہ میں بھی کبھی کچھ ہلکے پھلکے کا لم لکھوں۔ مثلاً اپنے بچپن کی با تیں، اپنے لنگو ٹیوں کے قصے، اور اپنے بیرونی دنیا کے سفروں کی کہا نیا ں، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔۔مگر جب ٹی وی پہ خبریں سنتا ہو ں،اور مختلف اخبا رات کا مطا لعہ کر تا ہو ں تو ضمیر جھنجو ڑتا ہے اور سوال کر تاہے کہ کیا اب ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شرو ع ہو گئی ہیںاور سب ہی اہلِ وطن را حت اور سکون کی نعمت سے سرفرا ز ہو نا شروع ہو چکے ہیں؟ اور پھر ضمیر کہتا ہے کہ واقعی اگر ایسا ہو چکا ہے تو تمہیں حق ہے کہ تم ہنستے مسکراتے، لطیفے سنا تے کالم لکھو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو تمہا رے ہا تھ میں جو یہ قلم ہے، یہ تمہا را نہیں ہے، یہ اس ملک کے با ئیس کروڑسسکیا ں بھرتے با سیوں کی اما نت ہے۔ اخبا را ت میں چسکیا ں بھری خبریں تلاش کرنے کے بجا ئے عوام کے حقیقی شب وروز کو جاننے کی کوشش کرو۔ تب میں اپنے ارد گرد کی جیتی جا گتی دنیا میں لوٹ آتا ہوں۔ سا منے پڑے اخبا ر کی شہ سرخی پہ نظر دوڑاتا ہو ں۔اس شہ سر خی کے مطا بق مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ معیشت ترقی کررہی ہے، جس کا مطلب ہے معیشت مضبوط ہورہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہنگائی ختم ہونے والی ہے۔ انہوں نے یہ خوش خبری ایسے وقت میں دی جب ادارہ شماریات کی ماہانہ افراط زر پر تازہ رپورٹ ابھی عوام میں زیر بحث ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق نومبر میں مہنگائی 21 ماہ کی بلند ترین سطح پر تھی اور یہ کب اور کیسے ختم ہوگی، بظاہر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ معاشی بحران سے چھٹکارے کی تسلیاں اب اطمینان کے بجائے بے یقینی میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ حکومت ٹیکس ریونیو میں اضافے کو معاشی ترقی کا جواز بنا کر پیش کررہی ہے، مگر ہمارے معاشی لیڈر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اضافہ پیداواری ترقی کا نہیں ٹیکسوں کی شرح اور درآمدات میں اضافے کا نتیجہ ہے۔ اب آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے 350 ارب کے مزید ٹیکس لگنے سے ریونیو میں مزید اضافہ ہوگا، مگر یہ رقم ملک میں صنعتی پیداوار اور آمدنی کے اضافی مواقع سے پیدا نہیں ہوگی بلکہ اشیا کی قیمتوں پر لاگو اضافی ٹیکسوں کی صورت میں صارفین کی جیب سے نکلے گا اور اس کے نتیجے میں اشیا مزید مہنگی ہوں گی۔ حیرت ہے کہ جو حکومت آنے والے چھ ماہ کے دوران عوام پر کم از کم ساڑھے تین سو ارب روپے کے مزید ٹیکس عائد کر رہی ہے، وہ یہ دلاسا بھی دے رہی ہے کہ مہنگائی ختم ہونے والی ہے۔ ڈالر کی بلند ترین شرح، توانائی کے وسائل کی بلند ترین قیمتیں، تجارتی خسارہ انتہائی بلند سطح پر، صنعت بحران کا شکار، مگر ہمارے مشیر خزانہ مانتے ہیں کہ معیشت ترقی کررہی ہے اور مضبوط ہورہی ہے۔ اس طرح کے دلاسوں کے بجائے حکومت نے اگر معیشت کی بہتری کے لیے کوئی حقیقی قدم اٹھائے ہوتے تو حالات ایسے برے بھی نہیں تھے کہ انہیں سنبھالا نہ جاسکتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے معاشی استحکام کے لیے اچھے فیصلے نہیں کیے، مگر بہت سے حوالوں سے وہ معاشی بندوبست جس طرح کررہے تھے اسے برقرار نہیں رکھا جاسکا۔ موجودہ حکومت نے ماضی کے ماڈلز کو ناکامی کا نسخہ قرار دیتے ہوئے اپنا جو روڈ میپ تشکیل دیا وہ بھی کام کرتا نظر نہیں آرہا۔ ہر حکومت کو اپنے دور میں اپنی مرضی کے اقدامات کا حق ہے مگر اسے اپنے اقدامات کی ذمہ داری لینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ تین برس کی معاشی کارکردگی کو دیکھیں تو کوئی بھی ایسا قابل ذکر اقدام نہیں جسے حکومت کا معاشی کارنامہ قرار دیا جاسکے۔ بدستور قرضوں پر گزارہ ہے اور قرضے بھی ایسی شرائط پر جو اپنی سختیوں میں بے مثال ہیں۔ چنانچہ فکر صرف یہ نہیں کہ ہمارا معاشی حال دگرگوں ہے بلکہ یہ بھی کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں وہ ہمیں کہاں لے جائے گا۔ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط منظور ہونے سے قبل یہ عندیہ دیا جارہا تھا کہ اس سے معیشت پر اعتماد بحال ہوگا اور عالمی سرمایہ کاری آئے گی، مگر عملاً اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ معاشی بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ اس کا ایک رنگ اگلے روز پاکستان
سٹاک ایکسچینج میں بدترین مندی کی صورت میں ہم سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور ہمارے معاشی منیجرز سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات اور سعودی عرب سے ملنے والے قرض پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس سے شرح مبادلہ میں استحکام آئے گا۔ ان پے بہ پے بحرانوں نے ہماری معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ہمارے معاشی ذمہ داروں کی لیاقت بھی اس سے عیاں ہوچکی ہے۔ ان حالات میں کسی کرشمے کی آس نہیں لگائی جاسکتی۔ معیشت حقیقی اور واقعاتی دنیا ہے اور اس کے مسائل کا حل دانش مندانہ حکمت عملی میں تلاش کرنا چاہیے۔ جذبات اپنی جگہ مگر ہم اپنے تازہ ترین تجربات سے یہ تو سیکھ ہی چکے ہیں کہ اہم امور معیشت میں صرف جذباتیت نہیں چلتی۔ ہر مسئلے کا ایک حل ہے اور ہر گرہ ایک ڈھنگ سے کھولی جاسکتی ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہم درست سمت میں کھڑے ہوں۔ لیکن معاشی معاملات میں جو کچھ نظر آرہا ہے اس سے نہیں لگتا کہ اس راہ پر چلتے ہوئے ہم کبھی استحکام حاصل کر پائیں گے۔ ہمیں ان بنیادی نکات سے پہل کرنے کی ضرورت ہے جنہیں معاشی استحکام کی بنیاد کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً غیرضروری درآمدات کم کرنے کی کوشش کی جائے، اس کا حل ٹیکسوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ یا کلیتاً پابندی نہیں بلکہ ملکی پیداوار بڑھانا اور معیار کو بہتر بنانا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے کم از کم اپنی زرعی ضروریات ہی میں خود کفیل ہوجائیں تاکہ جو اربوں ڈالر کھانے کے تیل اور دالوں وغیرہ کی درآمد پر خرچ ہوتے ہیں وہی بچالیے جائیں۔ ملکی ہنرمند افرادی قوت کو پہلے تو ملکی سطح پر ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہیے، اگر ایسا ممکن نہیں تو ہنرمند افرادی قوت کی برآمد پر توجہ دی جائے۔ ملکی آبادی کی غالب اکثریت پر مشتمل نوجوانوں کو، جو گزارے لائق تعلیم یافتہ ہیں اور اگر موقع ملے تو کوئی نہ کوئی ہنر بھی سیکھ سکتے ہیں، کیوں بروئے کار نہیں لایا جاتا؟ معاشی استحکام کے منصوبوں کا صدر نشین ہمارا سی پیک منصوبہ ہے جس سے توقع کے مطابق ہم چینی صنعت اور معیشت سے منسلک ہوکر دنیا کی صنعتوں کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔ مگر سی پیک کے منصوبوں میں کام کی رفتار حسب توقع نہیں اور پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ حالانکہ یہ رکاوٹ سی پیک کے منصوبوں کی راہ میں نہیں ہمارے مستحکم معاشی مستقبل کی راہ میں حائل ہے۔