دوستو، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ٹرین کا ڈرائیور لاہور کے علاقہ کاہنہ کاچھا ریلوے سٹیشن کے قریب ریل گاڑی روک کر بازار دہی لینے چلا گیا، وزیر ریلوے اعظم سواتی نے وائرل ویڈیو پر نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر ٹرین ڈرائیور رانا محمد شہزاد اور افتخار حسین اسسٹنٹ ڈرائیور کو معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔وزیر ریلوے نے کہا کہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی برداشت نہیں کیے جائیں گے، اگر آئندہ بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو اس کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے گا، پاکستان ریلوے قومی امانت ہے، اس کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
شدید گرمیوں کا زمانہ تھا،ریلوے سٹیشن پر گرمی کے اثرات کچھ اس طرح نظر آئے کہ لاہور اسٹیشن سے شاہدرہ جانے والی ٹرین بغیر ڈرائیور کے چلی گئی۔۔۔ڈرائیور جو کینٹین پر مزے سے چائے پی رہا تھا، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے،ٹرین میں کونسا کوئی مسافر تھا۔۔۔کراچی میں اول توپبلک ٹرانسپورٹ اب پہلے کی طرح رہی ہیں، جو باقی ماندہ رہ گئی ہے،اس کا یہ حال ہے کہ یا تو کنڈیکٹر کرایہ مانگتا ہی نہیں یا پھر ایک ہی مسافر سے ڈبل کرایہ لینے پر بضد نظر آتا ہے۔ٹرینوں کا حال ویسے ہی تباہی کا شکار ہے، گھنٹوں کی تاخیر روزکا معمول بن چکی ہے، کرایوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔۔ٹرینوں میں سہولتیں تو ایک جانب، سٹیشن پر بھی حالات دگرگوں ہیں، کھانے پینے کی اشیا باسی ملتی ہیں، پینے کا پانی ملتا نہیں، البتہ پانی کی بوتلیں اب مل جاتی ہیں وہ بھی ’’منرل‘‘ نہیں،نلکے کے پانی سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے ایک بار ہم لاہور سے کراچی اپنے گھر آرہے تھے، ایمرجنسی میں شالیمار ایکسپریس کی ٹکٹ مل سکی جو صبح چھ بجے لاہور سٹیشن سے روانہ ہونی تھی لیکن شدیددھند کے باعث ہمیں میسیج آیا کہ اب ٹرین ساڑھے سات بجے روانہ ہوگی، ہم رات کو سونے کی عادت نہیں رکھتے اس لئے سوچا کہ ٹرین میں تسلی سے سوئیں گے اور شام کو جب اٹھیں گے تو کراچی قریب آچکا ہوگا۔ ٹرین لاہور سے نکلی، ہم نے ٹکٹ چیکر کو ٹکٹ چیک کرایا، اور سوگئے،اچانک آنکھ کھلی تو رات شروع ہوچکی تھی اور گاڑی ایک سٹیشن پر رکی ہوئی تھی، ہم بغیر ناشتے کے سوار ہوئے تھے اس لئے بھوک شدید لگ رہی تھی، سٹیشن پر نظردوڑائی تو کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے تسلی سے کھایاجاسکے، مجبوری میں ایک پلیٹ سادہ چاول لے کر اس میں چنے کا سالن ڈلوایااور جلدی جلدی کھانے لگے، روہڑی سٹیشن پر ٹرین بیس منٹ رکتی ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کتنا ٹائم باقی رہ گیا۔ چاولوں کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ جتنا پانی اس کی فصل بونے میں لگتا ہے، اسے کھانے کے دوران بھی اتنا ہی پانی لگتا ہے، ہم نے سٹال والے سے پانی مانگا تو اس نے غصے سے ہمیں دیکھا، اس کا خیال تھا کہ عینک لگائے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے یہ بندہ پانی کی بوتل کیوں نہیں خریدتا، اب اسے کیا پتہ تھا کہ ہم اپنی ذات پر خرچ کرنے میں کافی کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ اس نے شیشے کا گلاس اور جگ ہماری جانب بڑھایا، ہم نے جیسے ہی پانی گلاس میں انڈیلا تو ایسا لگا جیسے ہم پانی نہیں، لیموں پانی پی رہے ہیں۔ گدیلا پانی عجیب ذائقہ لئے ہوئے تھا۔۔ خیررات تین بجے گھر پہنچے،نہائے اور کپڑے بدلے اور ایک گھنٹے بعد ہی ہماری لوٹا پریڈ شروع ہوگئی۔۔ دوپہر تک ہم نڈھال ہوچکے تھے، گھر والے قریبی ہسپتال لے گئے تو انکشاف ہوا کہ۔۔ ’’گیسٹرو‘‘ کا شکار ہوگئے ہیں۔ تین،چار ڈرپس لگیں تو کچھ توانائی آئی۔۔ یہ حال ہے ہماری ٹرینوں اور ان کے سٹیشنوں کا۔۔
ایک غائب دماغ پروفیسر بذریعہ ٹرین محوسفر ہے۔ راستے میں ٹی ٹی ٹکٹ چیک کرنے آیا توباوجود تلاشی کے پروفیسر صاحب کے پاس سے ٹکٹ برآمد نہ ہوا۔پروفیسر صاحب بہت پریشان ہوئے تو ٹی ٹی نے کہاکہ ۔۔کوئی بات نہیں میں آپ کوجانتاہوں آپ نے ٹکٹ ضرور لیاہوگالیکن شائد ٹکٹ کہیں گر گیاہے اس لئے پریشان نہ ہوں۔پروفیسر نے جواب دیا: ارے میں پریشان کیسے نہ ہووں۔آخر مجھے پتہ کیسے چلے گاکہ مجھے جاناکہاں ہے؟یہی پروفیسر جب لاہور سے کراچی پہنچ کر ٹرین سے اترے تو برے برے منہ بنارہے تھے۔گھر پہنچ کر بیوی سے بولے۔’’تمہیں معلوم ہے کہ میں ٹرین میں سفر مجبوراً ہی کرتا ہوں اس بار جہاز میں سیٹ نہیں ملی تو ٹرین سے آنا پڑا۔اوپر سے ایسی سیٹ ملی کہ میری پیٹھ اس طرف تھی جس طرف ٹرین چل رہی تھی،جب بھی ٹرین میں ایسی سیٹ پر بیٹھنا پڑے تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔‘‘۔۔ بیگم بولی۔۔ ’’تو آپ سامنے والے مسافر سے سیٹ بدل لیتے۔‘‘۔۔پروفیسرنے معصومیت سے جواب دیا۔۔سوچا تو میں نے بھی تھا لیکن سامنے والی سیٹ پر کوئی تھا ہی نہیں۔۔امرتسر ریلوے سٹیشن پر ٹرین چل پڑی،ایک سردار جی پاگلوں کی طرح ٹرین کے پیچھے بھاگ رہے تھے، میں ٹرین کے آخری ڈبے کے دروازے میں کھڑا ان کو بھاگتے دیکھ رہا تھا، بڑی مشکل سے جب وہ ٹرین کے پاس پہنچے تو میں نے ان کی طرف ہاتھ بڑھا دیا، سردار جی نے میرا ہاتھ تھاما اور ٹرین پر چڑھ گئے۔میں نے کہا‘‘واہ سردار جی بڑی ہمت ماری اے‘‘سردار جی بولے‘‘یار کھے تے سوا ہمت ماری، جیہنو چڑھان آیا سی او تے تھلّے رہ گیا‘‘۔
دو لڑکیاں ٹرین میں سفر کر رہی تھی ۔۔ایک بولی میں ایسے فوجی سے شادی کروں گی، جس کی تنخواہ دو لاکھ روپے ہو۔۔دوسری بولی اگر دو لاکھ والا نہ ملا تو ؟؟وہ بولی تو ایک لاکھ والے سے کرلوں گی ۔۔دوسری بولی اگر وہ بھی نہ ملا تو ؟؟وہ بولی ستر ہزار والے سے کرلو گی ۔۔دوسری بولی وہ بھی نہ ملا تو ؟؟وہ بولی۔۔ پھر پچاس ہزار والا بھی چل جائے گا۔۔اوپر برتھ پر ایک فوجی لیٹا ہوا تھا درمیان میں اچانک بول پڑا۔۔ اگر بات پینتیس ہزار تک آجائے تو مجھے جگا دینا ۔۔ایک آدمی ٹرین میں جا رہا تھا۔ ٹکٹ چیک کرنے والا آیا اور کہنے لگا۔۔ٹکٹ دکھاؤ۔۔۔آدمی نے ٹکٹ نکال کر دکھایا اور کہا۔۔یہ لو۔۔ٹکٹ چیک کرنے والاکہنے لگا۔۔ یہ تو پرانا ہے!۔۔مسافر نے برجستہ کہا۔۔ٹرین بھی تو پرانی ہے یا ابھی شو روم سے نکلوائی ہے؟؟۔۔ہم بچپن میں جب بھی یہ لطیفہ پڑھتے تو زاروقطار ہنستے تھے۔۔ ایک شخص ریل میں بغیر ٹکٹ سفر کر رہا تھا ٹکٹ چیکر آیا اور اس سے ٹکٹ مانگا تو وہ بولا۔۔ہمارا ملک آزاد ہے ہم آزاد ہیں یہ سب گاڑیاں ہماری اپنی ہیں اس لئے میں نے ٹکٹ نہیں لیا۔۔ٹکٹ چیکر بولا۔۔ جیل بھی آپ کی اپنی ہے اس لئے اب حضور اس میں تشریف لے چلیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کسی نے باباجی سے سوال پوچھا، مردوعورت میں سے کون افضل ہوتا ہے؟؟ باباجی جس طرح کے ذہین انسان ہیں،برجستہ بولے۔۔مرد ہی افضل ہوتا ہے۔ پوچھنے والے نے پھر سوال کیا، اس کی کوئی مثال دیں؟ باباجی کہنے لگے۔۔ آپ نے کبھی کسی عورت کا نام ’’ افضل‘‘ سنا ہے؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔