کورونا نے دنیا کو جو نقصان خاص طورپر معاشی حوالے سے پہنچایا اس کا ازالہ ہوتے ہوئے کتنے ہی برس شاید لگ جائیں، گورے ممالک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ”ٹورزم“ ہوتا ہے، پچھلے دو برسوں سے کورونا کے باعث مختلف یورپی ودیگر گورے ممالک نے اپنے دروازے ایک دوسرے پر بند کررکھے ہیں، ظاہر ہے اُنہیں ایسا مجبوری کے تحت کرنا پڑا، ……دنیا کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔ عالم پر ایک ڈپریشن طاری ہے۔ پچھلے دنوں جو دوست امریکہ، برطانیہ، مختلف یورپی ممالک یا دیگر ممالک میں گئے، اور وہاں جو پاکستانی مقیم ہیں، اُن کے ذریعے خبریں ملتی رہتی ہیں زندگی کس قدر وہاں اُداسی کا شکار ہے، اِن ممالک میں شورمچاتے ہوئے، ہنستے مسکراتے ہوئے، اور ناچتے ہوئے سمندر، دریا، ندیاں اور پہاڑ سب چُپ چُپ ہیں، ان سمندروں، دریاؤں ندیوں اور پہاڑوں سے ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، اب خال خال ہی وہاں کوئی دکھائی دیتا ہے، ہرقسم کے کلب بند ہیں، ریسٹورنٹس مختلف اقسام کی پابندیوں کی زد میں ہیں، بڑے بڑے شاپنگ مالز میں ہُو کا عالم ہے…… اللہ جانے کس کی نظر دنیا کو کھاگئی، یا پھر شاید اپنی ہی نظر دنیا کو کھاگئی، دوبرس قبل میرا آخری بیرونی دورہ جاپان کا تھا، پہلے تقریباً ہربرس میں اپنی گرمیوں کی چُھٹیاں یورپ کے مختلف ممالک میں گزارتا تھا، میرا سسرال کینیڈا میں ہے، میں بچوں کو وہاں چھوڑ کر، کچھ عرصہ سسرالی عزیزوں کے ساتھ گزار کر یورپ کے مختلف ممالک کی طرف نکل جاتا تھا، خصوصاً اٹلی، سپین، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں مقیم دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرتا، پر جو خوبصورتی میں نے جاپان میں دیکھی، اور جو خوبیاں میں نے جاپانی قوم میں دیکھیں، اور جس انداز میں جاپان میں پاکستانی سفارتخانے کو جاپان میں مقیم پاکستانیوں سے محبت کرتے ہوئے دیکھا، میں نے یہ فیصلہ کیا ہرسال گرمیوں کی چھٹیوں میں کہیں اور میں جاؤں یا نہ جاؤں جاپان ضرور جاؤں گا، کورونا میری اس خواہش اور سوچ کو بھی نگل گیا، دنیا کے بے شمار ممالک گھومنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا دنیا میں ”قوم“ کہلوانے کے حقیقی معنوں میں حقدار صرف جاپانی ہیں، میں اِن دِنوں ”جاپانستان“ کے عنوان سے ایک سفرنامہ بھی لکھ رہا ہوں، میری زندگی کے خوبصورت ترین دن یہاں گزرے۔ جاپان میں آکر احساس ہوا اللہ نے ایسے ہی خود کو رب العالمین قرار نہیں دیا، میں اکثر سوچتا ہوں دنیا کی جنتیں اتنی خوبصورت ہیں تو آخرت کی جنت کتنی خوبصورت ہوگی۔ جاپان کی سیاحت کے دوران کئی ایسے مقام بھی آئے جب مجھے یوں محسوس ہوا ”میں پاکستان میں فوت ہوگیا تھا، میرا حساب کتاب ہوگیا ہے، اللہ نے اپنے خاص کرم اور فضل سے مجھے بخش دیا ہے، اب میں جنت میں ہوں۔“ میرا پاکستان بھی بہت خوبصورت ہے مگر کل کائنات میرے رب کی ہے تو اس کائنات میں کئی اور ایسے مقام بھی میں نے دیکھے خوبصورتی میں جو پاکستان سے بڑھ کر ہیں، یا ممکن ہے پاکستان میں ان سے بھی بڑھ کر خوبصورت مقامات ہوں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر ابھی تک ہماری آنکھ سے اوجھل ہوں۔ خصوصاً ہمارا مواصلاتی نظام بہت ناقص ہے…… اپنے بے شمار خوبصورت مقامات کے بارے میں جو کچھ ہم نے سُن رکھا ہے اگر ہمارے سیاسی واصلی حکمرانوں نے ان کی طرف توجہ دی ہوتی، تو ہمارے لوگوں کو سیروسیاست کے لیے امریکہ، برطانیہ یورپ یا ایشیاء کے مختلف ممالک میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی، ……میں جب بھی وزیراعظم پاکستان سے مِلتا ہوں، اُن کے وزیراعظم بننے سے پہلے بھی میں جب اُن سے مِلتا تھا، ایک گزارش ضرور کرتا تھا ”ہم اپنے صرف دوشعبوں پر توجہ دے کر اُنہیں ایسی بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں کہ پاکستان کا شمار قرض لینے والے ممالک سے نکل کر قرض دینے والے ممالک میں ہونے لگے گا۔ ایک شعبہ زراعت کا دوسرا سیاحت کا ہے“ ……افسوس یہ دونوں شعبے ابھی تک حکمرانوں کی توجہ سے محروم ہیں، اِن میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، المیہ یہ ہے ہمارے سیاسی واصلی حکمرانوں کو ”ذاتی ضرورتوں“ سے فرصت نہیں ملتی وہ ”اصلی ضرورتوں“ کی طرف کیا توجہ دیں؟…… کے پی کے میں کچھ سیاحتی مقامات پر توجہ دینے کاآغاز ضرور ہوا ہے، اُس کے نتیجے میں اُن علاقوں میں سیاحت کا رجحان بھی بڑھا ہے، جو لوگ سیاحت کے لیے بیرون ملک جاتے تھے اور کورونا کے مختلف پابندیوں کی وجہ سے وہ اب وہاں نہیں جاپارہے تو اُنہوں نے پاکستان خصوصاً کے پی کے میں کئی ایسے خوبصورت مقام تلاش کیے جو خوبصورتی میں گورے اور کچھ ایشیائی ممالک کا بھرپور مقابلہ کرتے ہیں، اگلے روز امریکی شہر سیاٹل سے تشریف لائے ہوئے میرے عزیز دوست خالدنذیر مجھے بتا رہے تھے اپنے پچھلے دورہ پاکستان میں اُنہیں بلوچستان کے ایک علاقے ”سومیانی“ میں جانے کا اتفاق ہوا، یہ کراچی سے کوئٹہ کا ایک درمیانی مقام ہے، اُنہوں نے مجھے ”سومیانی“ کی کچھ تصویریں دیکھائیں، یقین کریں مجھے دنیا کاخوبصورت ”میامی بیچ“ اپنے ”سومیانی بیچ“ کے آگے ماند پڑا دکھائی دیا، اس کے علاوہ سورج غروب ہونے کے جو مناظر اُن تصاویر میں، میں نے دیکھے اپنے اُس ملک کی خوبصورتی پر مجھے رشک آیا جو ہمارے بے شمار سیاسی واصلی حکمرانوں کی نااہلیوں تلے دبی ہوئی ہے، ……یہ علاقہ (سومیانی) افواج پاکستان کے کنٹرول میں ہے، سُنا ہے افواج پاکستان کے اعلیٰ افسروں نے اسے اپنی ذاتی تفریح گاہ بنارکھا ہے، یا پھر اُن کی اجازت سے اُن کے دوست یا عزیزواقارب ہی وہاں جاسکتے ہیں، ……ہمارے بے شمار خوبصورت مقامات افواج پاکستان کے کنٹرول میں ہیں۔”بلڈی سویلینز“ کی وہاں تک رسائی نہیں ہے، …… ہماری مؤدبانہ گزارش ہے افواج پاکستان کی اعلیٰ شخصیات اگر کچھ پابندیوں کے ساتھ عام لوگوں کو اِن خوبصورت مقامات تک رسائی دے دیں تو اُن کے ساتھ پاکستانی عوام کی محبت میں مزید اضافہ ہی ہوگا، …… ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو اِس طرف ضرورتوجہ دینی چاہیے، پاکستان کے کچھ انتہائی خوبصورت علاقوں پر عوام کے لیے بند دروازے وہ اگر کھلوادیں کم ازکم اُن کا یہ کردارتاریخ میں ضرور یاد رکھا جائے گا، …… اِس سے اُن ”بلنڈرز“ کا بھی بہت حدتک ازالہ ہو جائے گا جو ماضی میں دانستہ یا غیر دانستہ طورپر ہم سے ہوتے رہے۔ بلوچستان میں اتنے خوبصورت مقامات ہیں پنجاب سے بلوچستان تبدیل ہونے والے ایک افسر نے مجھے بتایا پہلے بلوچستان تبادلہ مجھے سزا کی طرح لگتا تھا۔ اب بلوچستان کے کچھ خوبصورت مقامات دیکھنے کے بعد یہ تبادلہ مجھے ”جزا“ کی طرح لگتا ہے، ہماری گزارش بس اتنی ہے آزادی کے اس مہینے میں پاکستان کے کچھ خوبصورت مقامات کو آزاد کردیا جائے!!
ایک گزارش کچھ خوبصورت مقامات کی آزادی کے لیے!
11:14 AM, 10 Aug, 2021