کسی ظریف نے برسوں پہلے کہا تھا کہ اگر یوپی والے اپنی صحت کی بھی اتنی ہی فکر کرتے جتنی صحتِ زبان کی اور اہلِ پاکستان (خصوصاً اہلِ پنجاب) اپنی صحتِ زبان کی بھی اتنی ہی فکر کرتے جتنی اپنی صحت کی کرتے ہیں تو دونو کا بھلا ہوتا۔ یوپی کا حال تو خیر اب معلوم نہیں، ہاں اپنی سرزمین میں ایک عرصے سے صحت کا معاملہ بھی تلپٹ ہے اور صحتِ زبان کا اس سے بھی زیادہ تلپٹ اور عالم یہ ہو گیا ہے کہ: خط غلط، اِملا غلط، انشا غلط! اپنے پچھلے کالم میں ”نہ صرف“ کو ”نا صرف“ چھپا ہوا دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہا۔ معلوم ہوا کہ کمپوزر صاحب نے ”نہ“ کو ”نا“ کر کے میری اصلاح فرمائی ہے اور اپنی نافہمی کا ثبوت دیا ہے اور معاملہ اب ”نہ“ اور ”نا“ تک محدود نہیں رہا، ذرائع ابلاغ جن میں بدقسمتی سے اردو اخبارات بھی شامل ہیں، بڑی بے نیازی سے دانستہ یا نادانستہ اردو کا حلیہ بگاڑنے میں سرگرم ہیں اور کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو احساس تک نہیں کہ قومی زبان کا بگاڑ جانے بوجھے ہو یا بے جانے بوجھے، دراصل قومی تشخص کے بگاڑ کے مترادف ہے۔ بڑی مشکل یہ ہو گئی ہے کہ نئی نسل کا بیشتر دار و مدار انھی ذرائع ابلاغ میں منحصر ہو کر رہ گیا ہے لہٰذا ان کی زبان، روزمرہ، محاورہ اور مکالمہ تیزی سے بگڑ رہا ہے اور یوں ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر بعض دیگر ممتاز زبان دانوں کی طرح ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے بھی صحتِ زبان کا بِیڑا اٹھایا ہے اور اس موضوع پر ایک بہت مفید کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ہی ”صحتِ زباں“ ہے (ناشر: ادارہ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد) مگر اس سے پہلے کہ میں اس کتاب کی خوبیوں سے آپ کو آگاہ کروں، پہلے اسی کتاب میں شامل ایک دلچسپ لطیفہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جس سے اندازہ ہو گا کہ ہمارے بزرگ صحتِ زبان کے معاملے میں کس قدر حساس تھے۔
ایک زمانہ تھا (اور یہ زمانہ بہت حد تک خود میرا دیکھا ہوا ہے) جب ریڈیو اور ٹی وی پر درست تلفظ کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ ریڈیو پر ایسے ماہرینِ زبان کا تقرر کیا جاتا تھا جو صداکاروں اور فیچر اور خبریں پڑھنے والوں کا تلفظ درست کرتے تھے۔ ایک بار زیڈ اے بخاری نے ریڈیو پر ایک تقریر ریکارڈ کرائی اور نشر ہونے سے پہلے اسے سنا تو انھیں احساس ہوا کہ ایک لفظ کا تلفظ وہ غلط کر گئے ہیں، چنانچہ بحیثیت افسرِ اعلیٰ انھوں نے حکم دیا کہ تقریر دوبارہ ریکارڈ کی جائے۔ ایک ماتحت نے کہا: حضور چھوڑیے، لاکھوں میں کوئی ایک آدمی ہو گا جو اس لفظ کے صحیح تلفظ سے واقف ہو گا۔ بخاری بولے: ارے، اسی ایک کم بخت کے لیے تو اِسے دوبارہ ریکارڈ کرانا چاہتا ہوں۔ افسوس، اب اس طرح کی حسّاسِیّت ماضی کا قصہ ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا زمانہ تھا جب اخلاق احمد دہلوی، مولانا حامد علی خاں اور متعدد نامور زبان دان ذرائع ابلاغ کا سرمایہ تھے اور ان کے دم سے معیاری اردو ہوا کے دوش پر پرّاں ہو کر کانوں میں رس گھولتی اور دلوں میں جوت جگاتی تھی۔ لوگ ریڈیو سن کر اپنا تلفظ درست کرتے تھے۔
رؤف پاریکھ صاحب نے اپنی قابلِ قدر کتاب ”صحتِ زباں“ میں ان متعدد الفاظ، تراکیب اور محاورات کی نشاندہی کی ہے جنھیں پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے ایک عرصے سے تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قوی دلائل دے کر ان الفاظ و تراکیب کی صحیح وضعو ں کو اجاگر کیا ہے۔ موصوف لسانیات کے ماہر ہیں اور الفاظ و تراکیب کے اسرار و رموز سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا وسیع لسانی پس منظر کتاب کے ورق ورق پر ان کے کام آیا ہے۔ یہاں بعض ان اغلاط کی نشاندہی بے محل نہ ہو گی جو ذرائع ابلاغ سے کثرت اور تواتر کے ساتھ سرزد ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان اغلاط کی تصحیح کو بھی نشان زد کر دیا ہے۔ غلط جملے اور ان کی درستی ملاحظہ کیجیے:
۱۔ ”میں نے استفادہ حاصل کیا“۔ میں نے استفادہ کیا (”استفادہ“ میں حاصل کا
مفہوم موجود ہے لہٰذا استفادہ کے ساتھ حاصل لکھنا غلط اور بے معنی ہے)۔
۲۔ ”طیارے کے حادثے کی رپورٹ اَفشاں کر دی جائے گی“۔ اس جملے میں ”اَفشاں“ نہیں، ”اِفشا“ کا محلّ ہے۔ ”افشا“ چھُپی ہوئی چیز کے ظاہر کرنے کو کہتے ہیں جبکہ ”افشاں“ وہ سنہرا برادہ ہے جو خواتین سنگھار کے طور پر مانگ میں چھڑکتی ہیں۔
۳۔ ”اِنشَاءَ اللہ میں آؤں گا“۔ انشاء اللہ کو ملا کر لکھنا درست نہیں، اسے ”اِن شاءَ اللہ“ (یعنی اگر اللہ نے چاہا) لکھنا چاہیے کیونکہ عربی میں اِن کا معنی ”اگر“، شَاءَ کا مطلب ”چاہا“ ہے۔
۴۔ ”تمام اہلیانِ لاہور سے درخواست ہے“۔۔۔ ”اہلیان“ سے دھیان فوراً ”اہلیہ“ کی طرف جاتا ہے سو ”اہلیان“ بالکل غلط ہے۔ صحیح ”اہلِ لاہور“، ”اہالیِ لاہور“ یا ”اہالیانِ لاہور“ ہے۔ ظاہر ہے کہ اہل کے سابقے کے ساتھ کتنی ہی تراکیب بنتی ہیں جیسے اہلِ وطن، اہلِ زباں، اہلِ قلم، اہلِ خانہ، اہلِ کتاب۔ ان سب تراکیب میں ”اہل“ واحد ہونے کے باوجود جمع کا مفہوم دے رہا ہے لہٰذا اہالی/ اہالیان کی نسبت یہی زیادہ فصیح بھی ہے اور آسان بھی اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ زبان آسانی چاہتی ہے۔
۵۔ ”برائے مہربانی مجھے پانی پلا دیں“۔ ”برائے مہربانی“ کا اس جملے میں بالکل غلط استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ ”برائے مہربانی“ کا مطلب ہے ”مہربانی کے لیے“، اور یہ بالکل بے معنی ہے۔ صحیح ”براہِ مہربانی“ یا ”از رہِ مہربانی“ ہے جس کا لفظی معنی ہے ”مہربانی کی راہ سے“، یعنی مہربانی فرما کر، مہر بانی کر کے۔
۶۔ ”برِّصغیر میں کئی قومیں آباد ہیں“۔ اس جملے میں ”برِّصغیر“ کا استعمال درست نہیں۔ ”برصغیر“ کی جگہ ”برعظیم“ ہونا چاہیے کیونکہ انگریزی کے ”کانٹی نینٹ“ کو ”براعظم“ کہا جاتا ہے۔ اعظم کا معنی ہے ”سب سے بڑا“۔ ”اعظم“ سے چھوٹا ازروئے لغت اور ازروئے منطق ”عظیم“ ہو گا نہ کہ ”صغیر“۔ اب وہ علاقہ جو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال و بھوٹان جیسے نہایت وسیع رقبے پر مشتمل ہو اتنا چھوٹا کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے ”برِ صغیر“ کے حقیر اور بے مقدار لفظ سے ظاہر کیا جائے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اکثر اہلِ قلم ”برعظیم“ کے بجائے ”بر صغیر“ کی ترکیب برتتے ہیں جو نامناسب بھی ہے اور معنوی اعتبار سے غلط بھی۔ واضح رہے کہ ”برصغیر“ کا مطلب ہے خشکی کا چھوٹا سا ٹکڑا جبکہ مذکورہ ممالک کی جغرافیائی وسعت ایک چھوٹے سے براعظم کے مترادف ہے۔
کیا ہم ”برعظیم“ کو ایک مدت سے ”برصغیر“ کہہ اور لکھ کر کہیں اپنے احساسِ کمتری کا اظہار تو نہیں کر رہے؟ ایسا احساسِ کمتری جو ہمارے لاشعور کی گہرائی میں چھپا ہوا ہو؟
۷۔”چشم زدن کی ترکیب کی بھی ان دنوں شامت آئی ہوئی ہے“۔ شامت اس لیے کہ اخبار نویس اور ٹی وی کے میز بان اسے ”چشمِ زدن“ لکھنے اور بولنے لگے ہیں۔ ”چشم“ کی میم کے نیچے ”زیر“ لگانا غلط ہے کیونکہ ”چشمِ زدن“ کا معنی ہو گا ”زدن (مارنے) کی آنکھ“ اور یہ ایک بے معنی ترکیب ہے۔ ”چشم زدن“ کا معنی ہے آنکھ جھپکتے ہی، فوراً، ایک لمحے میں، پلک جھپکتے ہی، بہت تیزی سے۔ لہٰذا چشم کی میم پر اضافت لگانا بے معنی ہے۔
۸۔ ”ہامی“ اور ”حامی“ دو الگ الگ لفظ ہیں۔ ”حامی“ عربی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں ”حمایت کرنے والا“، جبکہ ”ہامی“ اردو کا لفظ ہے اور اس کا معنی ہے”ہاں کہنے کا عمل“ جیسے، اس نے فلاں کام کی ہامی بھر لی۔ اگر جملے میں یوں لکھا جائے کہ: اس نے فلاں کام کی حامی بھر لی تو یہ غلط ہو گا۔
ڈاکٹر پاریکھ صاحب نے بڑی تلاش اور کاوش سے ”صحتِ زباں“ میں دوسو بتیس الفاظ، محاورات اور تراکیب درج کی ہیں جنھیں ہمارے ذرائع ابلاغ کے بزرجمہر، اخبار نویس اور ’کاتا اور لے دوڑی‘ پر عامل بعض نام نہاد ادیب غلط لکھتے بولتے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ یہ لوگ بے دھڑک حیرانی کو ”حیرانگی“، خود کُش کو خود کَش، اِزدِحام کو اژدہام، اِنکسار کو انکساری، تابع کو تابعدار، خط کتابت کو خط و کتابت، برخاست کو برخواست، فریقین کو دونوں فریقین، مُتَرجِم کو مُرَ، جِّم، کان کَن کو کان کُن اور ہراسانی کو ہراسگی لکھتے بولتے ہیں اور ایک لمحے کو پریشان اور پشیمان نہیں ہوتے۔
پاریکھ صاحب نے پیشِ نظر کتاب تالیف کر کے نہ صرف ایک بڑی علمی ضرورت کو پورا کیا ہے بلکہ کتاب کے اسلوب کو بھی جا بجا اپنی خوش مزاجی سے ہرا بھرا رکھا ہے اور یوں بظاہر موضوع کی خشک زمین میں مِزاح اور لطافت کے خوش رنگ پھول کھلائے ہیں۔ ذرا آپ بھی کچھ جملوں سے اپنے مَشامِ جاں کو معطر کر لیں: بس صاحب! اگر آپ آج سے طے کر لیں کہ ہامی کو حامی نہیں لکھیں گے تو گویا آپ نے ہامی بھر لی کہ آپ درست املا کی مہم کے حامی ہیں۔/ امید کرنا چاہیے کہ کُشتن اور کَشیدن کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمارے ٹی وی کے میزبان خُود کُش میں کاف پر پیش بولا کریں گے ورنہ ہم کشیدہ خاطر رہیں گے اور یہ کشیدگی اچھی نہیں۔ / ہمیں اس نامراد مرض کورونا کو رونا ہے۔۔۔/ کئی بار حج کرنے والے حاجی صاحبان سے درخواست ہے کہ خود کو الحاج لکھیں بھی تو اسے ”جس نے حج کیا ہو“ کے معنی میں سمجھیں، نہ کہ ”بہت سارے حج کرنے والا“ کے مفہوم میں۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو بقول غالب: حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی!/ ہمارے بعض قابل لوگوں نے پانچویں جماعت سے آگے بھی کچھ ”فالتو“ تعلیم حاصل کر رکھی ہے لہٰذا انھوں نے انگریزوں کو بھی اصلاح دے دی ہے اور ”چیئرمین“ کی جمع ”چیئرمینز“ بنا کر ان کی زبان اور لغت میں ایک نئے لفظ کا اضافہ کر دیا ہے۔
حق یہ ہے کہ پاریکھ صاحب کی ”صحتِ زباں“، اردو کے مصنفوں، صحافیوں، ریڈیو ٹی وی کے میزبانوں اور علم دوستوں کے لیے ایک ناگزیر دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔