اگلے روز فردوس عاشق اعوان کا بیان پڑھ کر میں بہت دیر تک ورطہ حیرت میں رہاکہ حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ ابھی تک نہیں بدلا۔ موصوفہ فرماتی ہیں کہ قوم ڈنڈوں کی عادی ہے گو کہ اُن کا بیان کرونا ایس او پیز کے متعلق ہو گا لیکن جب کسی کے پاس ذخیرہ الفاظ خوشامد سے دشنام طرازی تک کا ہو تو پھر زیادہ گنجائش نہیں ہوتی یا تو تعریف ہوتی ہے اور یا پھر بکواس ہوتی ہے۔ ماشاء اللہ اوقات اتنی ہے کہ عمران خان کو پاکستان کا جھنڈا پکڑاتی ہیں اور وہ پرچم پکڑنے سے انکاری ہیں۔ فرماتی ہیں قوم ڈنڈوں کی عادی ہے پہلے تو مجھے بہت غصہ، شرمندگی حیرت ہوئی پھر جب تاریخ کے دریچے کھلتے گئے جنرل گریسی مقبوضہ کشمیر میں فوج کشی کرنے سے قائداعظمؒ کو انکاری نظر آئے۔ ایوب کامارشل لاء جسٹس منیر کی عدالت نے جائز قرار دیا۔ ضیاء اور مشرف کا بھی نظریہ ضرورت قانون قدرت بنتا ہوا دکھائی دیا۔ آئی جے آئی، ایم کیو ایم، سپاہ صحابہ، ن لیگ، ق لیگ، پی پی جتوئی گروپ، پی ٹی آئی کی افزائش کے جب اسباب جانے تو فردوس کا کہا ہوا سچ ہی تھا کہ قوم ڈنڈے کی عادی ہے بس! مسئلہ یہ ہے کہ محترمہ بھول گئیں کہ افواج پاکستان عدلیہ، پارلیمنٹ، اشرافیہ، کابینہ حکومت بلکہ بذات خود بھی قوم میں ہی شمار ہوتی ہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ اگر یہ قوم رعایا / عوام کو کہہ رہی ہیں تو پھر حکمران قوم سے باہر ہیں۔ اگر وہ باہر ہیں تو پھر ظا ہر ہے وہ تو ڈنڈے کے عادی نہیں البتہ جوتوں اور کتا کتا کہلانے کے عادی ہیں۔ اب نئی اصطلاحات بھی سیاسی مارکیٹ میں آ گئی ہیں۔ یہودی ایجنٹ اور غدار وغیرہ۔
کسی نے اسمبلی میں کہا تھا کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ شاید وہ اسی موقع کے لیے کہا گیا تھا کہ جس قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے جس کے ووٹ کے لیے در در پر جاتے ہو وہ ڈنڈوں کی عادی ہے؟ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ 5 جولائی 1977ء کے بعد اور 1970ء سے پہلے حکمران جوتوں کے عادی رہے ہیں۔ اس میں آئین 58-2-B کی شق کے گھاٹ اترنے والی حکومتوں اور حکمرانوں کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ سوال صرف اتنا ہے کہ موصوفہ اور اس کی حکومت بھی قوم میں شامل ہے کہ نہیں ہے۔
کاش! دنیا کی تاریخ سے ہی ہمارے حکمران واقف ہوتے، جغرافیہ سے تو نہیں ہیں،اپنی تاریخ کو چونکہ اپنے بچاؤ کے لیے آئے روز مسخ کرنے کے در پے ہیں۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء، پرویز مشرف سے طاقتور ڈنڈا کس کے ہاتھ میں تھا۔ کیا عوام کے سامنے ٹھہر پائے یہ تو ان کے اپنے ملک کی باتیں ہیں۔ عدالتوں کے ذریعے، سازشوں کے ذریعے اور کبھی آئین کی آمرانہ شق 58-2B کے ذریعے، اگر کبھی عوامی نمائندگی سے روح گردانی کی بھی تو پلٹ کر عوام نے ان کا ڈنڈا ان کو واپس نامعلوم جگہ میں چھپانے پر مجبور کر دیا۔ ڈنڈے کے زور پر حکمرانی کرنے والے جوتوں کی بوچھاڑ میں ہی گم ہوتے دیکھے ہیں۔ میرے خیال سے موصوفہ اور ان کی حکومت کی تائید اتنی محدود ہو گئی ہے کہ ان کو اب اپوزیشن پوری قوم دکھائی دینے لگی ہے۔ تبھی تو ڈنڈے کا رعب دیا ہے۔ کاش! اسلامی انقلاب ہی پڑھ لیا ہوتابلکہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی تاریخ ہی پڑھی ہوتی۔ دور کی بات نہیں تحریک آزادی ہند اور ذرا فرانس، چائنہ، روس، ایران کے انقلاب کی روئیداد ہی سنی ہوتی کم از کم سقوط ڈھاکہ کے اسباب جان لیں تو ڈنڈے کا خناس پناہ مانگتا پھرے گا اور پھر انہیں معلوم پڑتا کہ قومیں ڈنڈوں سے نہیں ہانکی جایا کرتیں۔ حیران ہوں کہ موجودہ حکمرانوں، ان کے ترجمانوں کی زبانوں سے تہذیب، تمدن، اخلاقیات پر مبنی الفاظ کیوں نہیں نکلتے۔ ایک سے بڑھ کر ایک بدتمیزی، بدتہذیبی، بد اخلاقی، ڈھٹائی، جھوٹ اور منافقت میں سر پٹ دوڑتے ہوئے ایک دوسرے پہ سبقت لیتے جا رہے ہیں۔ وہ بھی زمینی حقائق کے برعکس بلکہ خلاف حقیقت مؤقف کا پروپیگنڈہ کر کے، رہی بات قوم کے ڈنڈوں کا عادی ہونے کی تو ڈنڈے تو بہت معمول کی بات ہے آپ قوم کی بات کرنے والوں کو سولی چڑھا چکے، بیچ چوراہے کے گولی مروا چکے، جلا وطنیاں، کوڑے، ٹکٹکیاں، شاہی قلعے دکھا چکے اور ابھی ڈنڈا لئے پھرتے ہیں۔ دراصل یہ بھی سچے ہیں کیونکہ ڈنڈے کے ڈر سے سیاسی جماعتوں کا ہر نئے اقتدار کے موسم جاری سفرجاری رکھنے والے ڈنڈا ہی علاج سمجھتے ہیں۔ دراصل علم، شعور، قابلیت، اہلیت، ہو تو کوئی ایسا بیان جاری نہ کرے یہ جہالت کا نظریہ ہے مجھے یاد ہے اگلے روز میرا کالم یادوں کے دریچے اچانک فیس بک پر نمودار ہوا، کیا وقت تھا، کیا لوگ تھے، سبحان اللہ! گوجرانوالہ میں جب وکالت شروع کی ینگ لائرز آرگنائزیشن کی صدارت میرے بعد جناب مقصود احمد بٹ کے پاس تھی۔ ایک حکمران جماعت کا نمائندہ بارسے خطاب کرنے آیا تو ہم نے اس سے چند سوال کیے کوئی جواب نہ بن پایا اور اس کا خطاب خفت مٹاتے مٹاتے ختم ہو گیا اس کا تعلق کامونکی سے تھا اور بہت سے حکمران طبقے کے لوگ سردیوں میں پسینے سے شرابور گئے کیونکہ ان کے پاس ڈنڈا تو تھا مگر عوام کو شعور کے اعتبار سے کسی سوال کا جواب دینا نصیب نہ تھا مگر اب تو ڈھٹائی کا وہ عالم ہے کہ اللہ کی پناہ!
تعلیم، تربیت اور ماحول کا بہت فرق ہوتا ہے۔ میں نے مقصود احمد بٹ (روزنامہ جنگ) کو زمانہ طالب علمی، وکالت، صحافت کے سبھی ادوار سے گزرتے دیکھا۔ ڈر، خوشامد، لالچ، خوف کیا ہے اس کے معانی مقصود احمد بٹ کے مزاج میں نہیں آتے تھے۔ گوجرانوالہ میں ایک تقریب وکلاء بار میں سردار اقبال مؤکل کو مقصود احمد بٹ لے کر آئے دیگر جج صاحبان بھی تھے مگر جو عزت ایک استاد کی تھی وہ کسی جج کی بھی نہ تھی۔ عزت، آبرو، تعظیم کا کلچر ماضی بن گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کوئی بھی ہوں مقصود احمد بٹ کے معترف ہوں گے جناب عابد حسن منٹو ہو ں یا موکل صاحب سب کو مقصود بھائی کا گرویدہ پایا مگر حکمرانوں نے ایک ایسی کیفیت اور فضا متعارف کرا دی ہے کہ علم، تمدن، تہذیب، وضعداری جیسے ان کے قریب سے بھی نہ گزری ہو۔ اللہ زندگی دے جناب حافظ انجم سعید صاحب اسلوب شاعر، میاں محمد افضل اور ممتاز دانشور جناب محمد سلیمان کھوکھر اور وکلاء صاحبان کو اللہ سلامت رکھے یہ لوگ ورنہ بس افسانوں میں ملیں گے جبکہ حکمرانوں کی بس ایک اقتدار خوبی ہے جو زیادہ سے زیادہ دو سال مزید بھگتنا ہو گی چل جائے گی۔
ان سب کی اوقات یہ ہے کہ صاحب کہلانے کے تو کوئی قابل نہیں مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ!
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
”یہ بنے ہیں سرکار کے مصاحب تو پھرے ہیں اتراتے وگرنہ عوام میں ان کی آبرو ہی کیا ہے“۔ قوم ڈنڈوں کی نہیں حکمران اور حکمران طبقے جوتوں کے عادی ہیں۔