میاں نواز شریف کا برطانیہ میں مزید قیام مشکل ہوتا جا رہا ہے،برطانیہ نے اب کے بار ویزا توسیع کی درخواست مسترد کر دی اور ”بیمار نوازشریف“ سے گزارش کی کہ آپ اپنے وطن تشریف لے جائیں۔میاں صاحب اس سے پہلے دو دفعہ ”ویزاایکس ٹینشن“لے چکے، اب تیسری دفعہ جب برطانیہ کی ہوم منسٹری نے ویزہ توسیع کی درخواست مسترد کر دی تو میاں صاحب ایک دفعہ پھر ویزا توسیع کے خواہش مند ہیں۔حکومت برطانیہ اس معاملے میں بہت کلیئر ہے کہ میاں نواز شریف یہاں علاج کی غرض سے آئے تھے، علاج ہوا یا نہیں لیکن وہ یہاں بیٹھے بھرپور انداز میں سیاست کر رہے ہیں۔جو لوگ برطانیہ وزٹ ویزاپرجاتے رہے وہ جانتے ہوں گے کہ برطانیہ ویزا کی توسیع زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی دیتا ہے جب کہ میاں نواز شریف تقریباً ڈیڑھ سال سے علاج کی غرض سے وہاں موجود ہیں۔علاج کس قدر ہوا یہ معاملہ ایک طرف رکھ دیں، میاں صاحب سیاسی جلسوں سے خطاب، پارٹی اجلاسوں میں گفتگو اور غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، وہ وہاں پولو کا میچ بھی دیکھتے ہیں، شاپنگ سے لطف اندوز ہو رہے اور پیزا شاپس پر فیملی کے ساتھ انجوائے بھی کر رہے ہیں مگر ظاہری طور پر بیمار ہیں۔ ایسی صورت حال میں برطانیہ کی ہوم منسٹری کا ویزا توسیع روکنا غلط نہیں ہو سکتا۔ایک طرف پوری دنیا میں اس وجہ سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی کہ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والا شخص جو صبح و شام یہ کہتا تھا کہ میرا جینا مرنا اپنے ملک کیلئے ہے، وہ اپنے ملک پاکستان جانے سے گھبرا رہا ہے۔ ن لیگی ترجمانوں کو نواز شریف صاحب کو قائل کرنا چاہیے تھا کہ وہ وطن واپس آئیں، قانونی طریقے سے اپنی جنگ لڑیں مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ ترجمان میاں صاحب کو مشورے دے رہے ہیں کہ جناب کافی دن میں دو دفعہ پینے جایا کریں اور پولو میچ بھی ہر ہفتے دیکھنے جایا کریں، اس سے پارٹی ورکرز کا”مورال“بلند ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نواز شریف قانون پر عمل کرنے کے بجائے مزید اپیل میں چلے گئے۔
جن حالات میں انہیں پاکستان سے باہر بھیجا گیا تھا‘وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔وفاقی و صوبائی گورنمنٹ پر جس طرح پریشر ڈالا گیا،بلیک میل کیا گیا اور میاں صاحب کو ”آخری اسٹیج“پر دکھا کر ملک سے فرار کرایا گیا یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف جن کے پلیٹ لیٹس دوبارہ کم ہونا شروع ہو گئے ہیں، واپس آئیں گے؟۔میاں صاحب کے پاس دو آپشن موجود ہیں،ایک تو صاف اور واضح ہے کہ میاں صاحب وطن واپس آئیں اور قانونی چارہ جوئی سے خود کو بے گناہ ثابت کریں،اپنے اوپر سے اشتہاری ہونے کا لیبل ختم کرائیں،خود کو سچا محب وطن ثابت کریں اورعدالتوں سے بری ہو کر دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کریں۔دوسرا آپشن یہ ہے کہ میاں صاحب برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے اپلائی کردیں جو ملنے کے امکانات موجود ہیں۔ یہاں شاہد خاقان عباسی اور اعتزاز احسن نے ٹاک شوز میں ایک تیسرے آپشن کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔اعتزاز احسن نے ایک ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ نواز شریف علاج کی غرض سے انڈیاجا سکتے ہیں جبکہ شاہد خاقان عباسی نے بھی ایک ٹاک شو میں اشارہ دیا کہ نواز شریف علاج کی غرض سے کسی دوسرے ملک کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔اب کسی دوسرے میں ملک میں علاج کی غرض سے جائیں یا سیاسی پناہ مگر یہ تو واضح ہو گیا کہ میاں نواز شریف وطن واپس نہیں لوٹیں گے۔مریم نواز کے بیان کہ”نواز شریف پاکستان کا حال اور مستقبل ہیں“،اس غبارے سے ہوا نکل چکی۔
نواز شریف کو نومبر 2019ء میں لاہور ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر چار ہفتوں کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی تھی۔یہ چار ہفتے ڈیڑھ سال پر محیط ہو گئے اور ابھی تک علاج شروع نہ ہوسکا،نون لیگی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ علاج کورونا کی وجہ سے شروع نہیں ہوا تھا،اب جلد علاج شروع ہو جائے گا،سوال یہ ہے کہ میاں صاحب اگرڈیڑھ سال علاج ہی شروع نہ کرا سکے تو پھر برطانیہ میں قیام کا مقصد کیا تھا؟۔برطانوی زندگی سے لطف اندوز ہونا،سیاسی جلسوں سے خطاب کرنا اور پولو میچ دیکھنا مقصود تھا یا اس کے پیچھے کچھ اور معاملات تھے؟۔وہاں بیٹھ کر مزاحمتی بیانیہ چلانا، ریاستی اداروں اور ملک کے خلاف بیان بازی کرنا،الطاف حسین کا کردار ادا کرنا مقصود تھا یا پھر واقعی میاں صاحب علاج کی غرض سے وہاں مقیم رہے۔ماہر برطانوی امیگریشن قوانین محمد امجد کے بقول”میاں صاحب کو اس سے قبل دو دفعہ ملنے والی وزٹ ویزا توسیع بھی امیگریشن رولز سے ہٹ کرسیکرٹری آف اسٹیٹ کے رحم و کرم پر دی گئیں“۔میاں صاحب برطانیہ میں وزٹ ویزا پر گئے، دو دفعہ تو سیع ہوئی اور وہ بھی امیگریشن رولز سے ہٹ کر،اب تیسری دفعہ بھی میاں صاحب مزید چھ ماہ کے قیام کی اجازت مانگ رہے ہیں۔مزید اس دفعہ بھی میاں نواز شریف نے میڈیکل گراؤنڈز پر ”ویزا توسیع“کی جودرخواست دی ہے، وہ درخواست بھی امیگریشن رولز سے ہٹ کر ہے۔محمد امجد کے بقول کہ”یہ اپیل سال سے ڈیڑھ سال تک چل سکتی ہے اور جب تک اپیل موجود ہے، میاں صاحب قانونی طور پر برطانیہ میں رہ سکتے ہیں“۔اگر سال یا ڈیڑھ سال اپیل چلتی ہے اور میاں صاحب وہاں رہ سکتے ہیں تو پھر مسئلہ ہی ختم ہو گیا،تب تک عمران خان کی حکومت جانے والے ہو گی اور میاں صاحب کا یہ پلان کہ تحریک انصاف کی حکومت میں واپس نہیں جانا،کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے۔یہاں ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی کہ نواز شریف کی بیماری، امیگریشن رولز سے ہٹ کر درخواستیں اور مزید ایسے ہی جھوٹ بول کر ترجمان نون لیگ کس بیانیے کی بات کرتے ہیں، ایک طرف یہ کہہ کر عوام سے جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ سب سے بڑے محب وطن نون لیگی لیڈرز ہیں اور دوسری جانب جھوٹ کے پلندے کھل رہے ہیں۔میری رائے اس معاملے میں بڑی واضح ہے، میاں صاحب واپس نہیں آئیں گے، یہ مزید چھ مہینے یا سال(ڈیڑھ سال بھی لگ سکتا ہے)اپیل پر گزاریں گے، مزید اگر ویزا توسیع نہ ہوئی تو یہ سیاسی پناہ لیں گے یا کسی دوسرے ملک میں علاج کا رخ کریں گے اور یوں ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کو کہیں سے این آر او مل جائے گا اور یہ دوبارہ پاکستان آ کر اس ملک کی ”تعمیر و ترقی“کے لیے کوشاں ہو جائیں گے۔