جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں نو اپریل کاسورج ڈوب ہوچکا ہے مگر قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اوربعض ذرائع کے مطابق رات بارہ بجے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ خبریں یہ ہیں کہ سپیکر اسد قیصر اور دیگر حکومتی عمائدین آٹھ اور نو اپریل کی صبح سحری تک اپوزیشن سے مذاکرات کرتے رہے اور وہ یہ وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ آئین کے تقاضوں اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق نو اپریل کی شام تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کروا دیں گے مگر (قابض) وزیراعظم کی طرف سے رات نو بجے کابینہ کا اجلاس طلب کرنے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اپوزیشن والوں کے مطابق سپیکر اسد قیصر نے ان کے سامنے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ تیس برس کا تعلق رکھتے ہیں، وہ کسی صورت تحریک عدم اعتماد پر گنتی نہیں کروائیں گے۔
ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہماری وفاداریاں آئین، قانون، جمہوریت اور نظام کے بجائے افراد سے ہوتی ہیں اور اسی نے ہمیں قوم کے بجائے چھوٹے چھوٹے متحارب گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ آج پی ٹی آئی والے اسد قیصر اور قاسم سوری کو اس کی وفاداری پر سراہ رہے ہیں لیکن نواز شریف یا آصف علی زرداری کا سپیکراس قسم کی وفاداری کا مظاہرہ کرتا تو وہ غدار قرار پاتا۔ خدالگتی کہوں تواسد قیصر، فواد چوہدری ،بابراعوان ، قاسم سوری اور کچھ دیگر پر مشتمل یہ گروہ عمران خان اور پی ٹی آئی سے اس درجہ وفاداری کر کے آئین، قانون ، ریاست اور قوم سے غداری کر رہا ہے۔ آپ افراد اور ریاست کے بیک وقت اس وقت ہی وفادار ہو سکتے ہیں جب فرد ریاست کا وفادار ہو مگر موجودہ صورت کچھ اور بن چکی۔ یوں بھی سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی بھی اس بنیادی تربیت کی ضرورت ہے کہ وہ وطن سے وفاداری بالواسطہ نہیں کر سکتے بلکہ یہ وطن کی مٹی سے محبت کا قرض بلاواسطہ ہی ادا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے آئین شکنی کی ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ شہری اپنی ذاتی، سیاسی، گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہوں مگر یہاں پی ٹی آئی کے کارکن گلی ،محلوں اور سڑکوں پربینرز لگا رہے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مقابلے میں اسے توڑنے والے کے ساتھ ہیں۔
پی ٹی آئی کے’ انفلوئینسرز‘ گمراہ کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتمادکے بجائے مبینہ خط اور فلور کراسنگ پر بات کرنا زیادہ اہم ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی کہ اگر اس خط کی کوئی اہمیت ہوتی تو سپریم کورٹ ہرگز ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار نہ دیتی۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہمیں سیاست میں اپنے مخالفین پر کفر اور غداری کے فتوے لگانے کی بچگانہ اور احمقانہ سیاست ختم کر دینی چاہئے۔ ہم وہ لوگ ہیں جوپاکستان بنانے والوں کو غدار قرار دے چکے ہیں، ہمیں یہ بات مادر ملت کے بارے کہتے ہوئے بھی نہ شرم آئی نہ حیا۔ یہ حربے عام طو ر پر آمروں کے رہے ہیں جو عمران خان استعمال کررہے ہیں۔ اسی حوالے سے تیسری دلیل یہ ہے کہ جب ہم عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں تو وہ یقینی طور پر حکومتی ارکان سے ہی متعلق ہوتی ہے ورنہ اپوزیشن ارکان نے کبھی وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار نہیں کیاہوتا۔ اگر ہم وزیراعظم کو چننے والے ارکان سے عدم اعتماد کا حق چھین لیں گے تو وزیراعظم عملی طور پرآمرمطلق بن جائے گا۔ اس پر کارکردگی دکھانے یا ارکان کو مطمئن رکھنے کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہ جائے گی۔ اگر پی ٹی آئی کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ارکان کا فیصلہ غلط ہے، عمران خان بہت بہتر طریقے سے ملک چلا رہے تھے، تو ان کو انتظار کرنا چاہئے کہ جب عام انتخابات ہوں تو عوام ان ارکان کو سزا دیں۔
تادم تحریر یہ صورتحال ہے کہ حکمران جماعت کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کر دی ہے اور کہا ہے کہ عدالت کو ایوان کے معاملات کی مائیکرو مینجمنٹ کا اختیار نہیں ہے۔ آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ عدالتی تاریخ جاننے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہماری عدالتیں ایوان پر اثرانداز ہوتی رہی ہیں۔ ہماری عدالتوں نے آئینی ترامیم تک پر حکم امتناعی جاری کیا اور انہیں مسترد کیا ہے۔ ایسے میں حالیہ فیصلہ پوری طرح آئین روایات کے عین مطابق ہے جس میں عدالت نے آئین میں دی ہوئی مدت پر ہی عمل کرنے کا کہا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ مدت بھی چار اپریل کو گزر چکی تاہم عدالت نے جو رعایت حکمران گروہ کو دی کہ وہ نو اپریل تک آئینی شرط پرعمل کرلے اسے رعائیت ہی سمجھنا چاہئے ورنہ عملی طور پر حکمران ٹولہ آئین توڑ چکا۔میری ممکنہ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ خان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آرٹیکل سکس کے تحت آئین شکنی کا مقدمہ وفاقی حکومت کرتی ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ جو بھی نئی جمہوری حکومت قائم ہو وہ اس پر فیصلہ کرے کیونکہ آئین شکنی تو ثابت ہوچکی۔ میری ممتاز قانون دان اعتزاز احسن سے بھی بات ہو ئی وہ کہہ رہے تھے کہ سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری دفاتر سے روزانہ ایسے ہزاروں احکامات جاری ہوتے ہیں جن میں آئین کی پاسداری نہیں ہوتی اور وہ عدالتوں سے مسترد بھی ہوتے ہیں مگر ان پر آئین کا آرٹیکل سکس نہیں لگتا۔ مجھے ان کی دلیل درست نہیں لگتی ،میرا موقف ہے کہ معمولی دفاتر کے عام سے احکامات کے ذریعے آپ قومی اسمبلی تحلیل نہیں کرتے، ان کے ذریعے آپ بنیاد سے محروم وزیراعظم کو مسلط نہیں رکھتے، ان کے ذریعے آپ پوری ریاست پر ناجائز اور غیر قانونی قبضہ نہیں رکھتے۔
ایک بات سمجھ لیجئے کہ پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام ہے جس میں وزیراعظم کا عہدہ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی حمایت کا محتاج ہے۔ وزیراعظم جس لمحے اس اکثریت کو کھوتا ہے اگلے ہی لمحے وہ آئینی طور پر عہدہ اور اختیار کھو بیٹھتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ عمران احمد خان نیازی نام کا یہ شخص اس بنیاد سے ایک ماہ پہلے سے محروم ہو چکا ہے مگر اس کے کے گروہ کے ارکان حیلوں بہانوں سے اس عدم اعتماد کے قومی اسمبلی میں اظہار کا راستہ روکے ہوئے ہیں، یہ سب کچھ جانتے بوجھتے، ہٹ دھرمی اور بے شرمی کے ساتھ، مخصوص مقاصد کے لئے کیا جارہا ہے تاکہ وہ اپنا غیر آئینی ، غیر سیاسی اور غیراخلاقی قبضہ برقرار رکھ سکیں۔ پاکستان آئین اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے ایک بدقسمت ملک ہے۔ آپ جب ٹریفک سگنل پر چند موٹرسائیکل سواروں کو سگنل توڑٹے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کا چالان کرتے ہیں تو ان کا سوال درست ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا سگنل توڑنے پر ہمیں جرمانہ اور سزا ، کیا اس ریاست نے پرویز مشرف کو آئین توڑنے پر عبرت کا نشان بنایا، کیا یہ ریاست عمرا ن خان اوراس کے ٹولے کواقتدار کے لئے ہر آئینی اور جمہوری اصول کو توڑنے پر سزا دے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ٹولے کی ہٹ دھرمی سے بغاوت تک میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا۔ اب اپوزیشن کو صرف سپریم کورٹ سے توہین عدالت کی استدعانہیں کرنی چاہئے بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے ان سب کو آرٹیکل سکس کے تحت سز ا دینے کی اپیل کرے تاکہ آنے والے دنوں میں کسی کو بھی آئین اور عدالت کے ساتھ ایسی کھلواڑ کا موقع نہ مل سکے۔