پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا : چیف جسٹس

پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا : چیف جسٹس

اسلام آباد : نئے عدالتی سال کا پہلا روز،سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس  میں چیف جسٹس  قاضی فائز عیسٰی نے  خطاب کیا۔

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یقینا ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے، دیکھا جائے کیا پہلے سے بہتری اور شفافیت آئی ہے یا نہیں، پہلے تو بینچ بنتے ہی علم ہو جاتا تھا کہ فیصلہ کیا ہو گا، اب مجھے خود پتہ نہیں ہوتا کہ دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ کریں گے، کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہو گا؟ اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ شفافیت آئی ہے۔

  قاضی فائز عیسٰی  کا کہنا تھا کہ  اس طرح کے مواقع پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کیس میں سے بدنیتی کا عنصر نکال دیتا ہوں، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، کچھ لوگ پراسکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہوگا، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لوگوں نے 30، 40 سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے، کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے، اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔

مصنف کے بارے میں